دو ٹکے کا وزیر

اسلامی جمہوریہ پاکستان جو کہ  اسلام کے نام پر وجود میں آیا اگر  اس  کے نام سے لفظ اسلام کو نکال دیا جائے یا اس زمانے میں جب کہ اس کی جدو جہد جاری تھی  اگر اسلام کا لفظ نکال دیا جاتا تو  قیامت تک برصغیر کے مسلمانوں کو  پاکستان کی آزادی کے لیے جمع نہ کیا جاسکتاتھا  اور پاکستان کو کبھی وجو د نہ ملتا مگر اسلام ہی وہ واحد نظریہ تھا جس کی قوت سے پاکستان کو وجود  کو وجود ملا اسلام ہی نے مسلمانان برصغیر کو وہ تحرک بخشا کہ وہ پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے پر آمادہ ہوئے اور ایسی قربانیاں پیش کی کہ اس صدی کے اندر اس کی کوئی ایک مثال بھی تاریخ دینے سے عاجز ہے ۔

اسلام کی پوری عمارت توحید و رسالتؐ پر قائم ہے بلکہ توحید کی معرفت اور پورا اسلام بھی رسالتؐ محمدیﷺ کے طفیل ملا ہے یہ جو پور ی دنیا میں آج مسلمانان عالم کی محبت حضور ﷺ کے ساتھ ہے وہ اسی احسان کی وجہ سے ہے کہ جو حضورﷺ نے  انسانیت کے اوپر کیا ہے  آپ ﷺ نے پوری انسانیت کو اللہ کی معرفت کرائی اور پھر اللہ تعالٰی نے آپ ﷺ پر نبوت کو ختم فرماکر ساری انسانیت کو بتا دیا کہ اب جو بھی کامیابی چاہے وہ آخری کتاب اور خاتم النبیین ﷺ کی سیرت پر عمل کرے اور ان سے محبت کرے تو کامیاب ہوسکتاہے ۔

یہ تمہید اس پس منظر میں باندھی گئی ہے کہ  آج کل ملک بھر میں سیاسی ماحول  کافی گرم ہے اور ہونا بھی چاہیئے یہ ایمان کا تقاضا ہے ۔ پوری دنیا میں تو اسلام پر اور ناموس رسالتؐ پر حملے ہوہی رہے ہیں جس پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں ۔یہ حملے دو طرح سے ہورہے ہیں ایک وہ حملہ ہے جس کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے جس طرح فرانس میں ناموس رسالتﷺ پر حملہ ہوا اس کوفرانس کی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے ۔جب فرانس کی حکومت کی سرپرستی ایسی ذلیل حرکت پر حاصل ہورہی ہے  تو  دیگر چھپے ہوئے غلیظ ذہینت رکھنے والے انسان نما حیوان بھی ایسی حرکات میں بے باک ہوتے جارہے ہیں ۔ کریلا اور اس پر نیم چڑا کے مصداق ہمارے وزیر  اعظم  صرف زبانی جمع خرچ کررہے ہیں اصولا سرکاری سطح پر کی جانے والی اس حرکت پر حکومت پاکستان کا  جواب ، اینٹ کا جواب پتھر سے آنا چاہئیے تھا مگر پھسپھسا سا مداہنت سے پر جواب آیا جس سے لاچاری، مفلسی ، بزدلی  جھلک رہی تھی  ۔

جس پر عوامی ردعمل آنا ایک فطری بات تھی ۔عوام کا ردعمل اس بات کا مظہر ہے کہ آج بھی اس احسان کا  احساس عشق کی صورت میں  امت کے قلب میں موجود اور زندہ ہے جو آنحضورﷺ نے انسانیت پر کیا مسلمان اپنی ہر چیز سے زیادہ عزیز  ناموس رسالتﷺ کو رکھتاہے ملک بھر میں ہونے والے مظاہرے ناموس رسالت ﷺ پر حملے کا جواب ہیں اگرچہ جس کا جواب حکومت وقت کو دینا لازم تھا ۔ اس معاملے کا تعلق دین و ایمان سے ہے اس وجہ سے یہ مسئلہ بنیادی قرار پاتاہے اس واقعے پر جب وزیر برائے مذہبی امور کا بیان آیا تو شک یقین میں بدل گیا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ کس کی چاکری اور غلامی میں لگا ہو ا ہے ۔

ان کا نام تو نورالحق قادری ہے مگر وہ تو ظلم اورکذاب کی چاکری کرتے پائے گئے انہوں نے بیان دیا کہ ہم فرانس کے سفیر کو نکال کر مغرب کو اپنے خلاف نہیں کرسکتے پھر   دو ٹکے کے اس وزیر نے کہا سفیر کو نکال دیا تو کچھ نہیں ہوگا اس سے  تو ہماری برآمدات آدھی رہ جائے گی ۔ایک ملک کے آواز اٹھا نے سے  کچھ نہیں ہوگا ۔

اگلے دن وزیر اعظم صاحب  نے دوبارہ اپنی لچھّے دار تقریر قوم کے سامنے پیش کی وہ اور وزیر مذہبی امور ایسا لگ رہا تھا کہ ایک پیج پر ہیں  انہوں نے بھی تقریبا ویسی ہی باتیں کیں جس میں اضافہ یہ تھا کہ پچاس اپنے جیسے بے حس اور بے غیرت حکمرانوں کو ملاکر دباؤ ڈالوں گا  تو  اس کا اثر ہوگا ۔ان لچھے دار تقاریر سے یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ ان دوٹکے کے وزراء نے اپنا تعلق  اسلام کے شاندار ماضی سے توڑ لیا ہے اور اپنا رشتہ مغرب سے جوڑلیا ہے ان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ابھی ماضی قریب میں  سلطان عبدالاحمید کے زمانے میں جب فرانس میں توہین آمیز ڈرامہ  پیش ہونا تھا تو سلطان کو جیسے ہی اطلاع ملی اس غلیظ حرکت کی اس نے غیرت ایمانی کا ثبوت دیا اور اسی وقت فرانس کے سفیر کو طلب کیا اور  غصّے میں سفیر سے کہا کہ اگر یہ حرکت کی گئی تو اس کے سنگین نتائج فرانس کو بھگتنا ہوگا سلطان کے اس پیغام نے فرانس کے پیروں سے زمین نکال دی اور اس فرانس کو اپنے اس حرکت سے باز رہنا پڑا ،  آج کے مدینہ کی  ریاست کےخواب دکھانے والے اور اس کے دوٹکے کے وزیر اور کل کے سلطان عبدالحمید میں کتنا فرق تھا ۔

نہ سلطان کے وزیر برائے مذہبی امور کو قوم سے یہ کہنا پڑا کہ ہم مغرب کو اپنا مخالف نہیں کرسکتے کیونکہ ہماری برآمدات ختم ہوجائے گی ، ہم پر پابندیاں لگادی جائینگی ۔ہم بھوکے مرنے لگیں گے ۔

پھر اگلے دن  نہ سلطان  نے قوم سے خطاب کرکے کہا کہ میں مغرب کو جانتا ہوں وہ اس طرح اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا (ڈر کے مارے فرانس کا نام بھی نہ لیتے ہوئے ) ،  پچاس ملکوں کو ساتھ ملاکر پھر  مغرب پر دباؤ ڈالوں گا  تب اس کا اثر ہوگا۔

حکومت ایسے خوف زدہ ہے جیسے فرانس کو اگر اس حرکت سے باز رکھنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے تو جو خوشحالی ملک میں ہے وہ مفلسی میں بدل جائے گے ، برآمدات اور درآمدات سے جو ہم کھربوں  روپے کماتے ہیں وہ ختم ہوجائے گی ۔جو دودھ اور شہد کے نہریں پورے ملک میں بہ رہی ہیں وہ سوکھ جائیں گی ۔روز بروز جو ہم ترقی کے منازل طے کررہے ہیں وہ  رک جائے گی ہمارے ملک سے جو بے روزگاری ختم ہوئی ہے دوبارہ ہم بے روزگار ہوجائیں گے آج بڑی قربانیوں اور محنت  پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑ ا کیا ہے کہیں ان کی ساری محنت اور قربانیوں پر پانی نہ پھر جائے ۔

مگر اصل بات یہ ہے کہ یہ سارے سیکولر اور بے دین لوگوں کی حکومت ہے یہ چاہے مدینہ کی ریاست کا دعویٰ کرنے والا وزیر اعظم ہو یا دوٹکے کا وزیر برائے مذہبی امور ، فرانس ایک سیکولر ریاست مگر یہ بھی دوغلی ریاست ہے اصل میں یہ متعصّب مذہبی گروں کے زیر اثر ہے اور ان کا ہی پر تو ہے جو ملک سےتمام اسلامی شناخت کو مٹانے کے در پہ ہے اب گیند عوام کے کوٹ میں ہے کہ وہ ایسے لوگو ں سے جان چھڑانے کے لیے اپنی رائے دینی جماعتوں کے حق استعمال کرے جو دین کو مکمل اور عملی طور پر اس ملک میں نافذ کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کررہی ہی۔