تعلیم نسواں 

   ” تعلیم نسواں ” سے مراد عورتوں کی تعلیم ہے۔ دراصل یہ لفظ دو الفاظ کا مرکب ہے تعلیم اور نسواں  “تعلیم “کے معنی علم حاصل کرنا اور  “نسواں ” عربی زبان کے لفظ ” نساء ”  سے ہے جس کے معنی عورت کے ہیں۔  گویا اس سے مراد عورتوں کی تعلیم ہے۔

    عورت اس کائنات کا جمال و شاہکار ہونے کے ساتھ دلکش وجود بھی ہے جس کے بغیر کائنات کی تکمیل مکمل نہیں۔ عورت کی تعلیم کے بغیر نہ تو  معاشرےمیں استحکام آ سکتا ہے اور نہ ہی نئی نسل کی بہترین تعلیم و تربیت ممکن ہو سکتی ہے۔اسلام نے عورت کی تعلیم پر زور دیا ہے اور اسے خاص مقام بھی عطا کیا ہے۔ علم ایک خاص لا محدود موضوع ہے جو ہر شے کے ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔

 علم ایک ایسی دولت ہے جو تقسیم کرنے سے مزید بڑھتی ہے . یہ وہ روشنی ہے جو جہالت کی تاریکیوں کو ختم کرتی ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر علم کی اہمیت و فضیلیت بیان کی گی ہے اور مرد کے ساتھ عورت کی تعلیم کا حصول بھی لازم قرار دیا ہے۔

    ارشاد نبوی ﷺ  ہے:

    ” علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے . ”   (صحیح بخاری)

    ہمارے معاشرے میں کچھ بزرگ تعلیم نسواں کے حوالےسے منفی سوچ رکھتے ہیں ان کے نزدیک تعلیم صرف مردوں کے لیے ہے عورتیں صرف باورچی خانے کے لیے پیدا ہوئی ہیں .اور تعلیم کا مقصد محض روزگار کا حصول ہے۔ تعلیم نسواں کی اہمیت سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت کی زندگی باورچی خانے سے شروع ہو کر دسترخوان پر اختتام پاتی ہے . یاد رکھیں یہ منفی سوچ لے کر ہم اپنی نئ نسل کو خود تباہ کر رہے۔

 ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ماں کی گود ہی بچے کی اولین درس گاہ ہے . بچہ جہاں سے سب سے پہلے علم حاصل کرتا وہ ماں کی گود ہے اور بچے کی بہترین تعلیم و تربیت کے لیے ماں کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے۔  ” مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے جب کہ عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے “۔ جس قوم میں عورتوں کی تعلیم پر توجہ نہ دی جائے وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی وہ ہمیں پسماندہ  ہی رہتی۔ ایک تعلیم یافتہ عورت ہی ملک کی تقدیر کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

     آزادکشمیر اور پاکستان میں آبادی کا پچاس فیصد حصہ عورتوں پر مشتمل ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ عہد حاضر میں امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی اکثر طالبات ہی ہوتی ہیں۔ اگر انہیں ثانوی تعلیم کے ساتھ اعلی تعلیم بھی دی جائے تو یقینا اس کے نتائج مثبت ہوں گے۔ ضروری نہیں عورت پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ بنے بل کہ وہ تعلیم یافتہ ہو کر نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور عورت کی اولین ذمہ داری اس کا گھر ہے وہ اسے بھی سنوار سکتی اور ماں ، بیٹی ، بہن ، بیوی کے روپ میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دے سکتی۔ کیوں کہ علم ایک نور ہے اور یہ نور جہاں ہو وہاں مصائب کم اور خوشیاں زیادہ پروان چڑھتی ہیں۔