مغربی جمہوریت غلامی کا سبب

ہم اصلاح کاری کے نام پر دور المیہ میں ہیں۔ہمارے اصلاحی نظام کے شیشے پر نظر آنے والی لکیریں دراصل نشاندہی کررہی ہیں کہ ہم اصلاح کاری اور اصلاح کاروں کے فریب میں ہیں۔جس کی وجہ سے شکست و ریخت کے آثار اس دیس کے اور پوری امت مسلمہ کے چہرے پر صاف نظر آرہے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں اس دھوکے،جھوٹ اور فریب میں حقیقی نظام کو گم کر چکے ہیں۔اس کی بات کرنے والے ہماری نظروں سے اوجھل ہیں کہ اب اصل کو نقل سے جدا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

اصلاح کاری کے نام پر جاگیردارانہ نظام کا فروغ اب کسی خاص ذہینیت کا خاصہ نہیں رہابلکہ اب اس میں پلاستر زدہ چہرے بھی شامل ہوگئے ہیں۔ایک ایسا نظام جس کی بیخ کنی اشد ضروری ہے مگر وہ اتنے شفاف طریقے سے ہمارے معاشرے میں کھیل رہا ہے کہ اب اسے پہچاننا ہی مشکل ہے۔طاقت کا یہ کھیل یوں تو ہمیشہ سے جاری ہے مگر اس وقت مکر فریب اور سچائی میں حد امتیاز کھینچنا آسان تھا اور اب انتہائی مشکل۔

اصلاح کے نام پر ایک اصلاح کار آتا ہے اور اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لیے کمزور کو دباتا ہے اور دبانے کے بعد اسے در گزر،صبر اور برداشت کا درس دیتا ہے۔یہ کھیل بارہا جاری رہتا ہے اور اس سرگرمی کے لیے خاص منصوبے کے تحت تیار کیے گئے لوگ اور سرگرمیاں کی جاتی ہیں تاکہ ایک عظیم اکثریت اس فریب میں گرفتار رہے کہ اچھائی مار کھاجانے اور دبے رہنے کا نام ہے۔

طاقت کا کھیل،غنڈہ گردی اور دہشت کا یہ کھیل کھل کر جس نے کھیلا وہ کچھ حاصل کر بھی لے تو لوگوں کا اعتبار حاصل نہیں کرپاتا۔مگر جنھوں نے یہ کھیل صالحیت اور اصلاح کے پردے میں کھیلا انھوں نے معاشرے کو جھوٹ کے نیزے پر رکھ کر فریب کی تلوار سے قلم کر دیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ایسا اس لیے ہے کہ دام تزویر میں لا کر کام نکالنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ باقاعدہ ایسا نظام اور ایسے اذہان تشکیل دیں جو خوف اور مرعوبیت کے تلے دبے ہوئے ہیں۔اس طرح ان کو غلام بنانا بہت آسان ہوجاتا ہے۔

آقائے دو جہاںؐ کی مثالی زندگی کو دیکھیں تو سبق ملتا ہے کہ وہ عورت جو راہ میں کچرا پھینکتی ہے اس ہی کی عیادت کو تشریف لے گئے۔جنھوں نے پتھر مارے کہ جوتے آپ کے مقدس خون سے بھر گئے ان کے لیے دعائے خیر کی۔ایسے کتنے ہی واقعات سے گزرتے ہوئے جب فتح مکہ تک پہنچتے ہیں تو عام معافی کا اعلان فرماتے ہیں۔جی ہاں ہندہ تک کو معاف فرمادیتے ہیں۔

لیکن دوسری طرف ہم اپنے ارد گرد کا جائزہ لیتے ہیں اذیت دیتے ہیں اور اذیت دینے والے کو پیغام دیتے ہیں کہ برداشت کرو کہ اللہ نے برداشت کا حکم دیا ہے۔انسان کے صبر کو آزما کر صبر کی تلقین کرنے والے اپنے ظلم کے لیے بڑی آرام دہ رعایت طلب کرتے ہیں۔وہ بھی خدا کے نام پر۔

ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ اپنا مفاد اپنا وقت پورا ہونے تک اپنی مرضی کا لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں۔جس میں کسی کی حق تلفی ہوتی ہے،کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور وقت پورا ہونے کے بعد فورا سے بات ختم کرنے کا سوال کھڑا کردیا جاتا ہے کہ اب جو ہوا سو ہوا،بس سب ٹھیک ہوجانا چاہیے۔ قرآن پاک میں نہ سنت رسول صہ میں کہیں بھی اس طرز عمل کا ذکر نہیں ملتا۔دراصل یہی وہ ظالم طبقہ ہے جنھوں نے مظلوموں کے لیے سمجھوتے ایجاد کیے۔کمزوروں کے لیے اپنے ذہن سے بنائے ہوئے ثواب کے راستے ڈھونڈے۔

لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اگر ہم اس سانس اکھڑتے ہوئے معاشرے کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو سمجھوتوں کے نام پر پیدا ہونے والے جرائم کی بیخ کنی کرنی ہوگی۔اگر کل ہم ایک عادل اور منصف معاشرہ چاہتے ہیں تو آج صدیوں سے لگائے گیے منافقت کے پودے کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔

اگر آج ہم نے یہ نہ کیا تو طاقت کے میدان میں کمزوروں کے ساتھ گلی ڈنڈا یونہی کھیلا جاتا رہے گا۔مجرموں کی پشت پناہی اسی طرح ہوتی رہے گی۔سیاست قمار خانہ ہوگی اور ریاست منڈی بنی رہے گی اور گھروں میں حبس بڑھتا رہے گا۔