رمضان میں کرنے کے کام

وبائی امراض کے باوجود ہر مسلمان خوشی سے نہال ہے اور کیوں نہ ہو؟ اللہ کریم نے ایک مرتبہ پھر اپنی رحمتوں سے نوازا ہے۔ یہ مہینہ ماہ غفران، ماہ رحمت اور ماہ نجات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ مہینہ اللہ رب العزت کے حضور گڑگڑا کر مانگنے اور منوانے کا مہینہ ہے، جس میں ہر مسلمان اپنے رب کوراضی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

روزہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے تیسرے نمبر پر ہے۔ یہ انسان میں روحانی صفات پیدا کرتا اور جسمانی صحت عطاء فرماتاہے۔ بندہ کو خدا کے قریب کرتا اور گناہوں کی آگ بجھا کر دین کی شمع روشن کرتا ہے۔ اس لیے ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں “روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اجر بھی میں دوں گا۔”حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سرکاردوجہاں کا ارشاد نقل فرماتے ہیں “رمضان میں جنت کے سب دروازے کھول دیے جاتے ہیں، پورا ماہ کوئی دروازہ بھی بند نہیں ہوتا۔ سرکش شیاطین زنجیروں میں قید کرلیے جاتے ہیں۔”

اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس سہولت سے مستفید ہونے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے دلوں کو صاف کرنا ہوگا۔ حسد، بغض، کینہ، نفرت، تعصب اور عداوت نہیں ہونی چاہیے۔ جب تک دلوں میں یہ غلیظ بیماریاں رہیں گی، دل میں نیکی، تقوی اور خلوص کا نور نہیں آئے گا۔ جیسے لالٹین کا شیشہ جتنا صاف ہوتا ہے اتنا ہی دور تک چمکنا اور صاف روشنی پہنچاتا ہے۔ ہمیں نماز تہجد، استغفار، صلوۃ التسبیح کا اہتمام کرنا ہوگا۔ سب سے اہم کام اس مقدس مہینے میں گناہوں سے اجتناب کرنا ہے۔ آنکھ، کان، ہاتھ اور زبان کے ہمہ قسم کے گناہوں مثلا بدنظری، جھوٹ، موسیقی، رشوت ستانی اور کسی کی دل آزاری سے مکمل طور پر بچنا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس مقدس مہینے میں اللہ کے حضور خوب گڑگڑا کر دعائیں کرنے کی ضرورت ہے۔ جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں، یقینا بڑے ہی پریشان کن ہیں اس کی خود ساختہ وجوہات چاہے ہم جتنی بھی نکال لیں اصل اور حقیقی وجہ یہی ہے کہ ہمارا رب ہم سے روٹھ گیا ہے۔ روٹھنے کی وجہ بھی بالکل صاف اور سیدھی سی ہے، کہ ہم نے صرف اس کی نافرمانیوں پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ شرم و حیاء کے تمام ضابطے علی الاعلان توڑے ہیں۔ اس بے حیائی اور عریانی کو اجتماعی طور پر بھی فروغ دیا گیا ہے اور انفرادی بھی۔ اجتماعی کی مثال ہمارا میڈیا خصوصا سوشل میڈیا، جس میں ٹی وی ڈراموں، فلموں حتی کے کاروباری اشتہارات میں بھی فحش مناظر دکھا دکھا اس قدر بیمار ذہنیت کا حامل بنادیا ہے۔ اب وہ ایسی ہی چیزوں کو پسند کرنے لگے ہیں۔

آج سے یہ عہد کرنا ہے کہ یہ رمضان ہم نے سابقہ تمام رمضانوں سے الگ اور منفرد گزارنا ہے۔ پہلے اگر ہم رمضان میں بھی عبادات اور توبہ استغفار میں کوتاہی کرتے تھے، اس بار ایسا ہرگز نہیں کریں گے بلکہ اسے گولڈن چانس سمجھتے ہوئے اللہ تعالی کی خوب خوب بندگی اور فرائض و نوافل کی کامل ادائی کے ذریعے اس طرح منانا ہے کہ وہ ہم سے راضی ہوکر رحمت نچھاور فرمادے۔

روزہ مسلسل کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی عبادت ہے۔ اس دوران روزے دار کی زندگی کا ہر منٹ اور ہر سیکنڈ عبادت میں شمار کیا جاتا ہے۔رمضان میں نوافل و واجبات تراویح بہت بڑی نعمت ہے، کوئی مسلمان اس نعمت سے اس سال محروم نہ ہو اور تہجد کا بھرپور اہتمام کیا جائے۔ ٹی وی بالکل بند کردیں۔ چاہے خبریں ہوں یا کچھ بھی، حتی کہ وہ مجالس جن میں بے حیائی کی باتیں، غیبت اور جھوٹ جیسے گناہ ہوں، ان میں شرکت موقوف کر دیں۔”اس کے علاوہ فرض و مسنون اعمال مثل سحر و افطار، تراویح و قیام اللیل اور اعتکاف و ادعیہ ماثورہ کی پابندی سے اپنا وقت قیمتی بنایا جا سکتا ہے۔