نیو ورلڈ آ رڈر ‘‘مشرق کاعروج او رمغرب کا نقطہ زوال

صرف ایک سال پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ دنیا بڑی اور وسیع تبدیلیوں سے گزرے گی۔ کو وڈ 19 اس وسیع پیما نے پر پھیل جائے گا اور اتنے گہرے اثرات مر تب کرے گااور اس وائر س کے با عث ساری صنعتیں راتوں رات بند ہو جائیں گی اور تیل پر انحصار کر نے والی معیشتو ں کو نا قابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم دنیا کی تاریخ میں تیز رفتار تبدیلی کی دور سے گزر رہے ہیں ،تاریخ اس تجر با تی حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ عالمی طاقت کے ڈھانچے میں رد و بدل لازمی طور پر حکمرانی کے نظم کو متاثر کرتا ہے۔بیسو یں صدی کے آغاز پر دنیا ایک نا قابل شناخت جگہ تھی۔یو رپ اور مشرق وسطی بنیادی طور پر آسٹرو ہنگیرین سلطنت ،برطانوی آمپا ئر خلافت عثمانیہ اور اقتدار کے فرانسیسی مرا کز میں منقسم تھے۔روس چین اور جاپان کی اپنی سلطنتیں تھیں۔

ہندوستان جس پر صدیوں سے مغل سلطنت کی حکومت رہی ،تب انگریز وں کے تسلط میں تھا اور حکمران طاقتوں کا امپا ئرا سڑ کچر ہی یہ طے کرتا تھا کہ مقامی طور پر حکومتوں کو کس انداز میں چلا یا جانا چاہئے۔لیکن پہلی جنگ عظیم نے پرانے عالمی نظام کو مکمّل طور پر تبدیل کر دیا۔تمام بڑی سلطنتیں منہدم ہو گئیں۔سلطنت عثمانیہ کا مکمّل خاتمہ ہو گیا۔آسٹر و ہینگر ین سلطنت ٹکڑوںمیں بٹ گئیں اور جرمنی ،آسٹر یا ،جمہوریہ ہنگر ی ،جمہوریہ چیکو سلو ا کیہ،کرو شیا،سر بیا اور رومانیہ جیسے ممالک وجود میں آئے۔امریکہ تب نیا نیا بین الاقوامی منظر عام پر ابھر ا تھا ۔اس کے بعد دوسری جنگ عظیم شرو ع ہوئی جس کا خاتمہ اتحاد ی افواج کی فیصلہ کن فتح پر ہوا۔اس فتح نے ‘‘سلطنت ‘‘کے پرانے ڈھانچے کو ختم کر دیا ،یوں امریکا جیسے جمہوریت کے نئے دور کا آغاز ہوا۔جاپان نے مغربی طرز حکومت اپنا لیا ،حتیٰ کہ برطانوی سلطنت جو دوسری جنگ عظیم کے فا تحین میں شامل تھی لیکن زیادہ دیر تک اپنی سلطنت کی حیثیت برقرار نہ رکھ سکی اور اس نے بھی جمہوریت کا انتخاب کر لیا۔

اہم بات یہ ہے کہ جب سلطنتوں کا خاتمہ ہو گیا اور حکمران طاقتوں نے دنیا کا ایک نیا نقشہ تیار کیا تو اس میں سے سے اسرائیل بھی برآمد ہوا۔مشرق وسطیٰ عملی طور پر ملکہ کی خواہش کے مطابق تقسیم ہو گیا۔بر صغیر کو بہت سی جگہوں پر مقامی لوگوں کی مرضی کے خلاف وائسرائے کی کھینچی گئی سر حد کے تحت تقسیم کیا گیا۔افریقہ کے کچھ حصّوں کو چھوٹی چھوٹی قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔اہم بات یہ ہے کہ مغربی عالمی طاقتوں،جنہوں نے اپنی خواہش کے مطابق زیادہ تر عالمی نقشے کو موڑ لیا۔نئی نئی سرحدوں کے پاسداری کی ضمانت بھی دی گئی تھی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد کم و بیش چار دہا ئوں تک مغربی تسلط کو واحد چیلنج سو و یت یو نین کی طرف سے تھا۔مشرقی یو رپ سے کیو با تک پھیلے ان علاقوں میں سو و یت یو نین کے اشتر ا کی ریاست کے ڈھا نچے سے حکمرانی میں مدد لی گئی۔1991ء میں سو ویت یو نین کا خاتمہ ایک ایک قطبی دنیا کے آغاز کا با عث بنا۔ رومن امپا ئر کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ دنیا پر ایک ہی ملک غالب ہو گیا۔ریاستہائے متحدہ امریکہ۔امریکی سامرا ج کے زمانے میں غیر معمولی واقعات کا آغاز ہوا۔1990ء کے بعد سے امریکہ نے غالب ہونے کا لطف اٹھایا۔اس نے اپنی مرضی کے مطابق کئی ممالک پر حملہ کیا ،ان حکومتوں کا خاتمہ کیا ،جسے وہ نا پسند کرتا اور اپنی پسند کے استعمار پسندوں کی حمایت کی۔

جنہوں نے امریکی بر تری کو تسلیم کر لیا،ان کو نوازا گیا ،جنہوں نے امریکہ سے اختلا ف کیا ان کو سزا دی گئی ،جیسے و نیزو یلا، عراق،شام۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ 2020ء میں یہ سب بدل گیا کو وڈ 19 کے پھیلا و سے اپا ہج ہو چکی اور دو منا سب جنگو ں کے دوران اپنی عالمی توانائیوں کو ضایع کر دینے کے بعد ڈو نلڈ ٹرمپ رد عمل پر مبنی ‘‘امریکن فرسٹ ‘‘پا لیسی کا نتیجہ امریکہ کی بالا دستی کی عالمی سطح سے دستبر داری کی صورت میں نکلا۔اس امریکی انخلا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا نے مسا بقتی مفا دات کو جنم دیا۔

خاص طور پر چین کا عروج ،جو حالیہ عرصے تک سست تھا ،کورونا وائر س کی وبا ء کے دوران بیحد تیزی سے جڑ پکڑ گیا۔لاک ڈاؤن کے باوجود سی پیک منصو بوں کی تکمیل میں تیزی ،چین کے عالمی سطح پر آگے بڑھنے کا ثبوت ہے۔ایک عالمی ترتیب نو بالکل سامنے ہے اور ‘‘مشرق کی طرف دیکھو ‘‘کے حوالے سے ایک نیا دور شرو ع ہونے کو ہے۔

گلو بل پاور میں اس تبدیلی کے ان بین الاقوامی سرحدوں پر اثرات مر تب ہو سکتے ہیں ،جو ‘‘مشرق وسطی’’ حتیٰ کہ ایشیا میں کھینچ دی گئی تھیںوہ طاقتیں جنہوں نے سرحدوں کی ضمانت دی ،اب اس قابل نہیں رہیں کہ اپنے وعدے پورے کر سکیں۔ رواں سال 2021ء میں غالباً پوری دنیا کو ممکنہ طور پر امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔چینی کیمپ میں آنے والے ممالک کو جمہوریت کے مستعار لئے گئے امریکی ماڈل سے نکل کر ‘‘چینی ماڈل ‘‘کے بھی قریب آنا پڑ سکتا ہے۔ یقینا2021ء مشرق کے عروج کا پہلا سال ثابت ہو گا۔