رمضان نیکیوں کا موسم بہار ( پہلا حصہ)

میرے ایک قریبی عزیز نے، جو ڈاکٹر ہیں، اپنے ساتھ پیش آنے والا یہ حقیقی قصہ سنایا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ “میرے پاس ماہ رمضان میں ایک مریض آیا۔ وہ مرد مردانہ حسن کا نمونہ تھا۔ اس کی شکل وصورت اتنی خوبصورت اور قد کاٹھ ایسا نمایاں تھا کہ وہ دور سے ہی سب میں ممتاز لگ رہا تھا۔ قد اتنا اونچا لمبا تھا کہ تقریباً دروازے تک پہنچتا تھا۔ چہرے کا رنگ انتہائی سرخ وسفید تھا۔ اور ظاہراً اس کی شخصیت نہایت شاندار تھی۔ اس نے اپنے مسئلے کے علاج کے لیے چیک اپ کروا کر دوائی لی۔ اب اسے رگ میں انجیکشن بھی لگانا تھا۔

“کیا آپ نے روزہ رکھا ہوا ہے؟” ڈاکٹر صاحب نے اس سے پوچھا۔

“نہیں ڈاکٹر صاحب!” اس نے جواب دیا۔

“کیوں؟” ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا۔

“ڈاکٹر صاحب! مجھے کبھی کبھی fits دورے  پڑتے ہیں، اس لیے میں روزے نہیں رکھتا۔” وہ جواب میں کہنے لگا۔

“فٹس (دوروں) کے علاج کے لیے روزے تو فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔” ڈاکٹر صاحب نے کہا اور اسے روزے رکھنے کی ترغیب دلاتے ہوئے مزید کچھ باتیں سمجھائیں۔

“ڈاکٹر صاحب! اصل بات یہ ہے کہ جب سے میں پیدا ہوا ہوں، میں نے کبھی ایک دن بھی روزہ نہیں رکھا۔” وہ قدرے شرمسار ہو کر جواب میں بولا۔

“آپ روزے کیوں نہیں رکھتے؟” ڈاکٹر صاحب نے حیرانی سے پوچھا۔

“مجھے میرے والدین نے روزہ رکھنے کا نہ کبھی کہا ہے اور نہ وہ خود روزے رکھتے ہیں۔ اسی طرح اب نہ میں، نہ میری بیوی، اور نہ ہی میرے بچوں میں سے کوئی روزہ رکھتا ہے۔” خوبرو مریض نے جواب دیا۔

“تو اپنے گھر میں آپ اب اس نیک کام اور عبادت کی ابتدا کرلیں۔” ڈاکٹر صاحب نے اسے ترغیب دلانے کی کوشش کی۔

“اب میں ایک دم اتنی شدت کی گرمی میں کس طرح روزے رکھوں؟ یہ بات میرے بس سے باہر ہے۔ میں روزے نہیں رکھ سکتا۔” جواب میں اپنے عذر پیش کرتے ہوئے اس نے صریح انکار کر دیا۔

ڈاکٹر صاحب اس کے کھلے انکار پر پریشان ہو کر ہکا بکا اس کا منہ تکتے رہ گئے۔

ان سے جب میں نے یہ واقعہ سنا تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ ایسی صحت، قد کاٹھ اور خوبصورتی کس کام کی؟ کہ انسان رب تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے روزہ بھی نہ رکھ سکے۔

انسان ان نعمتوں پر اترائے لیکن اپنے جسم و جاں کو اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار اور مطیع نہ بنا سکے۔انسان اپنے نفس کو اپنے کنٹرول میں نہ کر سکے بلکہ خود نفس کا غلام بن جائے۔

صحیح مسلم میں ایک بہت خوبصورت حدیث قدسی بیان ہوئی ہے۔ حدیث قدسی درحقیقت رب کریم کی طرف سے اپنے بندوں کے نام نبی رحمتﷺ کے توسط سے خصوصی پیغام ہوتا ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں سے خود مخاطب ہوتے ہیں۔ اس حدیث کے الفاظ مبارکہ یہ ہیں کہ

ترجمہ: “ابن آدم کے ہر عمل کا ثواب اس کے لیے دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے لیکن اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ “روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔” (صحیح مسلم)

روزہ ارکانِ اسلام میں سے تیسرا رکن ہے اور ماہِ رمضان میں ہر مسلمان عاقل، بالغ، تندرست، مقیم مرد و عورت پر فرض ہے جسے بغیر کسی شرعی عذر کے ترک نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ مریض اور مسافر اس سے مستثنیٰ ہیں۔ لیکن ان کو اس کی قضا بعد میں ادا کرنا ہو گی۔ حیض و نفاس والی خواتین بھی مریضہ کے حکم میں شامل ہیں۔ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے۔

ترجمہ: “اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔” (سورۃالبقرة: 183)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ گزشتہ تمام امتوں پر فرض رہا ہے اور اب امت محمدیہ کے ہر بالغ مردوعورت پر بھی اس کی ادائیگی لازم ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے.

ترجمہ: “تم میں سے کوئی بھی ماہ رمضان کو پائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔”  (البقره: 185)