درخت ایک نعمت

درختوں کے بے شمار فوائد ہیں۔  اگر یہ کسی بنجر اور بے آباد جگہ پر ہیں تو بارش برسانے کا سبب بنتے ہیں۔  اگر سیم و تھور کی شکار کسی زمین پر ہیں تو زمین کو قابل کاشت بناتے ہیں۔ اگر کسی پہاڑ کی چوٹی پر ہیں تو برف کو آہستہ آہستہ پگھلا کر زمین کو سیلاب اور آفتوں سے بچاتے ہیں اور لینڈ سلائیڈنگ سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ اگر کسی سڑک یا راستے پر ہیں توچھاؤں فراہم کرکے آنے جانے والوں کےلیے راحت کا سامان بنتے ہیں اور اگر کسی بھوکے انسان یا جانور کے سامنے ہیں تو اس کی بھوک مٹاتے ہیں اور اگر کسی بیماری کا علاج درکار ہے تو  بہت سی ادویات میں استعمال ہوتے ہیں۔

کیا یہ سب چیزیں زندگی کے لیے ضروری نہیں ہیں؟؟؟ کیا یہ زندگی میں بھرپور فوائد مہیا نہیں کرتے؟؟؟ کیا ان کے بغیر زندگی کی کوئی صورت ممکن ہو سکتی ہے؟؟؟

 جو مخالف تھے ، اُنہیں بھی فیض پہنچاتا رہا

اُس شجر نے کاٹنے والوں  پہ  سایہ  کر  دیا

مزید پڑھیے : درخت اور ماحول

جب مسلمانوں نے اسپین کو فتح کیا تھا تو مسلمان حکمران عبدالرحمن اول نے سپین کو ایک نرالا تحفہ دیا تھا۔ وہ تحفہ ایک کھجور کا درخت تھا۔ اس نے اسے “آنکھوں کا نور” اور “دل کا سرور” قرار دیا تھا۔ہندوستان میں مغل بادشاہ بھی درختوں سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ انہی مغل بادشاہوں کی یادگاریں لکشمی باغ، لکھی باغ اور شالامار باغ وغیرہ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔

سب سے زیادہ درخت ڈنمارک، سویڈن، پرتگال اور کیلی فورنیا وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔ وہاں کے لوگ درخت نہیں کاٹتے کیونکہ وہ ان کی افادیت سے آگاہ ہیں۔

پرتگال کے ایک باغ کے باہر درج ہے کہ “اس راہ سے گزرنے والے انسان! اس سے پہلے کہ تو مجھے کاٹنے کے لئے ہاتھ بڑھائے, میری بات سنتا جا! میں موسم سرما کی راتوں میں تیرے چولہے کا ایندھن بن کر تیرے گھر کو گرم رکھتا ہوں, موسم گرما میں تیرے لیے سایہ فراہم کرتا ہوں, ہوا کو آلودگی سے بچاتا ہوں, تیرے بچے کا پنگھوڑا اور موت کے بعد تیری قبر کا سامان بھی میں ہی ہوں۔”

 کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے

چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

آج اگر ہم اپنے گردوپیش کے ماحول پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں بہت سے عناصر ایسے نظر آتے ہیں جو ہمارے ماحول کو بری طرح سے آلودگی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں مگر کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو ہمارے ماحول کو آلودگی سے بچا سکتی ہیں۔ ان میں درخت کا نام سرفہرست ہے۔

آج دنیا کو ایک بہت بڑا جو مسئلہ درپیش ہے، وہ ہے عالمی حدت (Global warming) ۔ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کو روکا نہ گیا تو یہ رفتہ رفتہ پوری دنیا کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتی ہے۔ اس  خطرناک اور سنگین مسئلے کا حل صرف ایک ہے اور وہ ہے درخت ۔ درختوں سے گلوبل وارمنگ کے عالمی مسئلے کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں موٹریں، بسیں، ٹرک، ریل گاڑیاں، ہوائی جہاز، فیکٹریاں، ایٹمی ہتھیار اور فضلہ اور دوسری چیزیں اپنا دھواں پھیلا کر فضا کو آلودہ بنا رہی ہیں، تو یہ درخت ہی ہیں جو فضاء کو آلودگی سے بچا سکتے ہیں۔

یہ درخت اوزون (ozon) کی تہہ کو نقصان پہنچنے سے بچا سکتے ہیں. اس کے علاوہ درخت بارش برسانے کا موجب بنتے ہیں. اپنے پتوں سے پانی اور نمکیات جذب کرکے ہوا میں نمی پھیلاتے ہیں۔

کرہ ارض کے گرد موجود اوزون کی قدرتی تہہ اہل زمین کو سورج کے خطرناک بالابنفشی شعاعوں ( Ultra Violet Rays) سے بچاتی ہے۔ اس تہہ کے ختم ہو جانے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے. جس سے قطبین (Poles) کی برف پگھل کر کئی براعظموں کو زیر آب کر دے گی اور جنگلات وغیرہ تباہ ہوجائیں گے۔ اس قدرتی تہہ اوزون کی سب سے بڑی دشمن فضائی و ایٹمی آلودگی ہے جس کے خاتمے کے لیے روئے زمین پر درختوں کی کثیر مقدار کا ہونا بے حد ضروری ہے۔

اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے آلودگی کے خلاف جہاد کیا جانا چاہیے اور کرہ ارض پر ہر قسم کی زندگی کے تحفظ کے لئے ممکنہ اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مختلف ممالک میں ماحولیاتی کانفرنسیں وغیرہ منعقد ہو رہی ہیں، جن میں یہ طے کیا جا رہا ہے کہ انسانی زندگی کی بقا کے لئے جنگلات اور درختوں میں اضافہ بےحد ضروری ہے۔ یہ شجرکاری ماحول کو صاف اور خوشگوار رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

 اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے

جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے

شجرکاری پاکستان کے حوالے سے  کسی بھی ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لئے اس کے پچیس فیصد (25) رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے مگر پاکستان میں یہ رقبہ صرف 4.5 فیصد ہے۔  پاکستان کا کل رقبہ 19 کروڑ 70 لاکھ مربع ایکڑ ہے۔ اس میں سے صرف 72 لاکھ ایکڑ رقبے پر جنگلات موجود ہیں۔ پاکستان میں دو دفعہ ہفتہ شجرکاری منایا جاتا ہے جس میں نہروں، سڑکوں کے کنارے اور دیگر جگہوں پر درخت لگائے جاتے ہیں۔ مصنوعی جنگل چھانگا مانگا کی آباد کاری پاکستان کی شجرکاری کے لحاظ سے ایک قابل قدر کوشش ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایک سائنسدان نے 100 فٹ اونچے ایک درخت پر مختلف تجربات کیے تھے۔ درخت پر تقریباً دو لاکھ پتے تھے اور یہ پتے فضا میں جو ٹھنڈک پیدا کر رہے تھے، اس کا اندازہ ایک لاکھ ٹن ایئرکنڈیشنرز کے برابر تھا۔ اور جو کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر رہے تھے، اور ماحول کی صفائی کے ساتھ خوراک بنا رہے تھے، وہ اس کےعلاوہ تھی۔ اس ایک درخت سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چھوٹے بڑے درخت مل کر نظام کائنات میں کس قدر اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ماحولیات اور نباتات کے ماہر ڈاکٹر ایس کا کہنا ہے کہ “ایک اوسط سائز کا درخت دوخاندانوں سے خارج شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو جذب کرکے ہوا میں کافی آکسیجن پیدا کردیتا ہے۔” “ناسا” کی تحقیق کے مطابق چھوٹے پودوں کے گلدستے گھروں میں رکھنے سے گھروں کی اندرونی فضا صاف ہوتی رہتی ہے۔

پورے پاکستان کی فضاؤں کو صاف اور خوشگوار رکھنے کے لیے ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ بقائے بشر کا بقائے شجر سے گہرا تعلق ہے۔ اس لیے ہمیں اس اصول کی روشنی میں حتی المقدور شجرکاری کرنی چاہیے۔ اس مہم میں ہر فرد خواہ مرد ہو یا عورت، طالبعلم شہری ہو یا دیہاتی، کسان ہو یا صنعت کار،  سب کو بھرپور حصہ لینا چاہیے۔ اللہ تعالی نے اس ملک کو بیش قیمت اور بے ملک کو بیش قیمت اور بے بہا خزانے سے نوازا ہے۔ یہاں کی زمین سونا اگلتی ہے۔ بس سوچ، لگن، ہمت اور جذبے کی ضرورت ہے.

 میں اک شجر کی طرح رہگزر میں ٹھہرا ہوں

تھکن اتار کے تو کس طرف روانہ ہوا

کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے کہ “قدرت کی تمام خوبصورتیاں درختوں اور پودوں (یعنی سبزے) کی بدولت ہیں۔