خوف کی نفسیات‎

بالادستی کا جنون،لوگوں پر غالب رہنے کی خواہش ایسی بیماریاں ہیں جو انسان کے لیے سرطان بن جاتی ہیں،اندر ہی اندر جڑیں پکڑتی یہ بیماریاں اول اول ایسا سرور دیتی ہیں کہ طاقت کے نشے میں اپنے ڈھلتے اعصاب اور اعضاء کی خبر ہی نہیں رہتی۔

حد تو یہ ہے کہ طاقت کا جنون طاقت کے نشے میں چٹختے اعصابوں کے ساتھ بھی کمزوروں کو خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

طنز،طعنے،ہرزہ سرائی سے،کبھی عزت اور ذلت کے خوف میں مبتلا کرنے میں غرض کہ کسی کی کمزور پوزیشن سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی خود غرض،بے حس اور مفاد پرست انسان دوڑتا چلا جاتا ہے لیکن اس شاہراہ کے آخری کونے پر وہ خود ہانپ رہا ہوتا ہے،کسی کے زیر بار آجانے کے خوف سے،کسی چوری کے پکڑے جانے کے خوف سے،کسی ان دیکھے نقصان کے خوف سے،سچ کے منظر عام پر آجانے کے خوف سے۔

اپنے آس پاس کسی اچکتے،جھانکتے ،بھاگتے انسان کو تو دیکھا ہوگا؟جس کی آنکھیں کبھی پوری کھل جاتی ہیں کبھی تیز گھومنے لگتی ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی چرب زبانی سے لوگوں کو قابو کرکے ان پر فاتح رہنا چاہتے ہیں۔کسی کے دل میں یہ وسوسہ ڈال کر کہ تمھارے سارے کام ہمارے دم سے ہیں تو کسی کو اس پھیرے میں لے کر کہ وہی سب کا خیر خواہ ہےجبکہ سچائی یہ نہیں ہوتی یہ سب طاقت کی ہوس ہے جس میں وہ خود دوسروں سے فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہےاور کبھی آنکھیں نہ کھلنے دینے کی خواہش لیے مختلف باتوں اور ہتھکنڈوں سے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔

اس کی وجہ یہی ہے کہ جو غلط قدم اٹھاتا ہے وہ جوابی کارروائی سے خوفزدہ رہتا ہےاور اس طرح حق کو دبانے کے لیے جھوٹ کے جھنڈے تلے اپنے چیلوں کو جمع کرتا ہے۔خود دباتا ہے خود چیختا ہے۔خود گراتا ہے،خود کراہتا ہے،خود دھاڑتا ہے خود کپکپاتا ہے۔

ہمارے اعمال کا ردعمل ہمارے اندر سے نکلتا ہے،امن قائم کرنے کی خواہش رکھنے والے کے لیے دنیا جائے اماں ہے،شیطانیت کا پرچار کرنے والوں کے لیے حرص ہوس اور آز ہے۔جہاں یہ جمع ہوجائیں وہاں سکون ناپید ہوجاتا ہے۔

خوف میں مبتلا کرکے اپنے کام نکالنے کی نفسیات ایک ایسا آتش فشاں ہے جو عین انجام کے دہانے پھٹتا ہےاور مبتلا کرنے والے کو خاک کرجاتا ہے۔