ہر بچہ کامیاب ہوتاہے

کچھ ماہ کچھ  مخصوص سرگرمیوں کے لیے مختص ہوتے ہیں ۔  مارچ کا مہینہ آتے ہی اسکول سے جڑے بچوں کے پہلے سالانہ امتحانات اور پھر ان کے نتائج کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اسی سلسلے میں محترم والدین اور اساتذہ کرام سے کچھ گزارشات ہیں ۔

  علم اللہ خالق و مالک کا فضل ہے جتنا ملا ہے اتنا ہی کم ہے  ۔ برائے کرم امتحانات کے نتائج کو اتنا بھی سنجیدہ نہ لیں کہ اسے جینے مرنے کا مسئلہ بنا لیں اور پھر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی اجیرن بنا دیں ۔  ایسے بہت سے والدین ہیں  خصوصاً والد جو پورا سال بچے کی تعلیم کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے سالانہ امتحانات میں ان کو بھی بچے  پہلی پوزیشن پر چاہیئں ۔  ہر والدہ کو اپنا بچہ انعام ملتا نظر آنا چاہیے ۔  میرے بھولے والدین نجی تعلیمی اداروں کے دھوکے  سے نکلیں  اور اور پچھلے پندرہ سال کے تجربے کی بنیاد پر یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ 90 فیصد والدین کو نتائج کا جائزہ لینا ہی نہیں آتا ہے ۔   پاس فیل کے چکر سے ہم نکل ہی نہیں پاتے  ۔

ایک اہم سوال والدین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ بہت آسانی سے بغیر سوچے سمجھے ہم اپنے مستقبل کے معماروں کو نالائق جیسا سخت لقب  دے دیتے ہیں  ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر ایک پانچویں جماعت کے بچے نے سائنس میں 90/100 نمبر لیے ہیں اور اب ریاضی  میں  سے33/100   نمبر لینے سے وہ نالائق کیسے ہو گیا یا چھٹی جماعت تک پوزیشن لینے والا بچہ آٹھویں جماعت میں فیل ہو کر نالائق کا تمغہ  کیسے حاصل کر لیا ۔

 اساتذہ سے بھی  ایک سوال کی جسارت کرتا ہوں ۔  آپ لوگ اسکول سے بچے کو نالائق کہہ کر  نکال دیتے ہیں آخر وہی بچہ ایک اچھا قاری اور حافظ یا پھر ایک بہترین درزی یا مکینک کیسے بن جاتا ہے؟ اگر وہ نالائق ہو تو زندگی کے ہر شعبے میں ہو نا ؟  اس کے علاوہ جو  بچے آج کل   1092/1100 لیتے ہیں ۔ انہوں نے کونسا سائنس دان بن کر ملک کے لیے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔

 گزارشات برائے اساتذہ:

  آپ نے جو شعبہ ارادی یا غیر ارادی طور پر منتخب کر لیا ہے وہ پیغمبرانہ شعبہ ہے۔  حضورؐ نے اپنا تعارف بھی بطور مدرس کروایا ۔ آپ کا فرمان ہے کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔  ہمیں یہ چاہیے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتی ہے ۔ اس لیے ہمیں اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرنے چاہیے۔  جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے بدوؤں کو دنیا کی سب سے مہذب قوم بنادیا۔  ہمارے شاگرد بھی ہمارے لئے صدقہ جاریہ ہو۔

اساتذہ ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھیں:

بچے کی غلطیوں کو معاف کریں تاکہ اس کو عملی طور پر معاف کرنے کی تربیت مل سکے، ہمیشہ وہ مضمون منتخب کیجیے جس میں مہارت ہو مسلسل اپنی عملی اور پیشہ ورانہ قابلیت کو بڑھانے کی کوشش کیجئے۔

 یاد رکھیں  جو بچہ آج آپ کے پاس ہے وہ  لا علم  ہے لیکن  کل وہ لا علم  نہیں رہے گا اور تب آپ کو اس کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔

 ہمارے استاد کہا کرتے تھے کہ  شاگرد وہ نہیں ہوتا جسے استاد کہے کہ یہ میرا شاگرد ہے ، شاگرد وہ ہوتا ہے جو خود اپنا تعارف کروائے کہ میں فلاں استاد کا شاگرد ہوں۔

   ایک اور بات بھی تجربے کی روشنی میں موجود اساتذہ کی خدمت میں رکھتا چلوں کہ  ایک مرتبہ کوئی شاگرد کسی استاد سے  متاثر ہوجائے پھر لاکھ درجہ بہتر قابلیت و استعداد والا استاد  بھی اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔

 گزارشات برائے والدین:

 سالانہ امتحانات کے بعد نتیجے والے دن جانے والے جذبات کو سارا سال جگائے رکھیں۔

 اپنے بچے کی تعلیمی کمی کو جانچنے کی کوشش کریں نجی تعلیمی اداروں کے جھانسوں جیسے میڈل سرٹیفیکیٹ اور گفٹ کے چکر میں نہ آئے۔

نمبر، پوزیشن اور گفٹ، سرٹیفیکیٹ سے زیادہ استاذہ سے یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ کیا آپ کا بچہ جماعت میں جست رہتا ہے، کیا اس کے اندر سوال کرنے کی صلاحیت ہے، مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے۔

 بچے کو والدین سے جو سب سے زیادہ بڑا تحفہ چاہیے ہوتا ہے وہ ہے  حوصلہ افزائی اس لیے اپنے بچے کی جنس کے حوصلہ افزائی کیجے خصوصاً دوسروں کے سامنے ، جن مضامین میں اچھی کارکردگی  دیکھائی ہے ان کا تزکرہ بار بار کیجے، اس سے بچے میں اپنی کمی کوسننے کا حوصلہ پیدا ہو گا ۔اور پھر بہتری آئے گی۔  اگر بچہ آج فرسٹ  نہیں آیا  تو کوئی بات نہیں اگلے سال آ جائے گا۔

 بچے کی وقتی ناکامی کو دوسروں  خصوصی رشتہ داروں  میں تذکرہ کر کے اسے احساس کمتری کا شکار نہ بنائیں۔

 سب سے اہم بات ہے ہر  بچے نے ہی  ڈاکٹر، انجینر   نہیں بننا ہوتا  ان   مستقبل کے معماروں میں بہت سے کھلاڑی، صحافی، وکیل، فن کار، مذہبی رہنما  ہوتے ہیں۔اپنے بچے کی بات کو سمجھیں ۔  اس کو سنیں اور اس کے مسائل کو حل کرنے  کی کوشش کریں۔

 بچے جو ہوتے ہیں وہ برف کے پانی میں چینی کھولنے کے جیسے ہے وقت تو لگے گا تھوڑا نہیں مکمل سوچیں!!!