بے روزگاری سے ذہنی تناؤ، نشہ خوری اور جرائم عروج پر

بےروزگاری ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جو معاشرے کے امن و سکون کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ عہد حاضر میں کورونا وائرس جس تناسب سے پھیل رہا ہے اس سے زیادہ بےروزگاری بڑھ رہی ہے۔ نوجوان طبقہ جو کسی بھی قوم کی ترقی و خوش حالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہ بےروزگاری کے مسئلہ سے دوچار ہے۔ اس مسئلہ سےنوجوان طبقہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہا اور ذہنی تناؤ انہیں نشہ خوری اور جرائم کی جانب دھکیل رہا ہے، جس سے اخلاقی و سماجی برائیاں جنم لے ہی ہیں۔

عہد حاضر میں اگر ہم عصمت فروشی، چوری، ڈاکہ زنی، بے ایمانی، نشہ خوری اور دیگر جرائم کا جائزہ لیں تو اس میں سب سے بڑا کردار بے روزگاری کا ہے. اگر نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ روزگار بھی فراہم کیا جائے تو جرائم کی شرح میں کمی آ سکتی ہے۔  نوجوان طبقے کو جب اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں روزگار نہ ملے تو وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے اور پھر جرائم کے پیشہ سے منسلک ہو جاتے اور کچھ خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں۔

ریاست کے کسی بھی ادارے میں آج سو افراد مطلوب ہوں تو وہاں دس ہزار درخواستیں جمع ہو جاتی ہیں اور اس پر کامیاب صرف سو ہی ہوتے باقی سب کو ناکامی و مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ ناامیدی انہیں جرائم کی جانب دھکیل دیتی اور کچھ خودکشی کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

حکومت پاکستان اور حکومت آزادکشمیر سے گزارش کروں گا کہ کورونا وائرس سے زیادہ جو ریاست میں بےروزگاری کا وائرس بڑھ گیا ہے پہلے اس پر توجہ دیں اس کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں، اور میرٹ پر تقرری عمل میں لائی جائے، سستا اور یکساں نصاب تعلیم رائج کیا جائے، طلبہ کو سہولیات دی جائیں اور ایسا نظام لایا جائے جس سے بےروزگاری کم ہو سکے اور معاشرے میں امن قائم ہو سکے،یہ اب نہیں کیا گیا تو پھر کبھی نہیں ہوسکے گا، اور اس خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔