قرضوں میں جکڑی عوام

سب سے پہلے اسلام پھر پاکستان

رکیں اور ذرا پڑھ لیجیے کہ ہم اور  ہماری قوم کہاں کھڑی ہے؟

 حجت نہ پیش کیجیے کوئی فضول میں، ہم انتہا پسند ہیں، وطن کے عشق میں

زندگی تو سب کو ملتی ہے جینے کے لیے نہ کہ زندگی گزارنے کے لیے۔

بقول شاعر :

اپنی زندگی پرگزارہ کیجئے

جیسی بھی ہو گزار  دیجیے

خیر یہاں ہم عوام تو نہ جی رہے نہ زندگی گزار رہے ہیں بلکہ عام آدمی سے لیکر وزیراعظم تک ہم قرضے لیں رہے ہیں اور قرضوں کے بوجھ تلے ہم غلامی کے پستی اور دلدل میں پڑے ہوئے ہیں، جہاں فکری، شعوری، معاشی، معاشرتی، تعلیمی نظام کے خلاف آواز اٹھانا ” آ بیل مجھے مار ” کے مترادف ہے اور دوسرے، تیسرے دن اس شخص کا پتہ نہ معلوم افراد کے فہرست میں درج کیا جاتا ہے۔

 یہاں ووٹ کے ساتھ ساتھ قلم بکتا ہے، ایوانوں، عدالتوں اور کچہری میں نوٹ پر ضمیر فروش جج، سینٹر، وکیل بکتے ہیں ۔ یہاں سود، رشوت، دھوکہ، فریب، جھوٹ، ملاوٹ، کو  ہوشیاری عقلمندی سمجھا جاتا ہے ۔

بقول جون ایلیا

” اس سماج میں جو آدمی برا نہیں وہ بیوقوف ہے “

یہاں زینب جیسی ہر آئیں روز بچیوں کو اٹھا کر استعمال کر کے کوڑا کرکٹ میں پھینک دیا جاتا ہے ۔ یہاں سر کے دام اور  بولیاں لگائی جاتی ہیں ۔

بقول شاعر:

گلشن کی بربادی کیلے ایک الو ہی کافی تھا

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا

( نوٹ: بلاگ اصلاح معاشرے اور بلا اختلاف پر مبنی ہے)