ہمارا تعلیمی نظام (دوسرا اور آخری حصہ)

ہمارا خیال ہے کہ اسکولز کے پرنسپل صاحبان اور ذمہ دار حکام اعلی سر جوڑ کر بیٹھیں، اس “گلے سڑے” اور “بوسیدہ” نظام تعلیم کو اٹھا کر پھینکیں،بچوں کو “طوطا” بنانے کے بجائے “قابل” بنانے کے بارے میں سوچیں۔

تعلیم  یا جہالت ؟

 تعلیم یا علم جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے انسان میں ویسے ویسے عاجزی کا مادہ بھی بڑھتا جاتا ہےکوئی انسان جتنا زیادہ علم رکھتا ہے اس میں ا نا اور تکبر اتنا ہی کم ہوتا ہے۔  کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپکی تعلیم آپ کو کہاں لے کر جا رہی ہے؟

کیا آپ میں اپنی تعلیم کا غرور تو نہیں؟جو تعلیم آپ کو انسانیت سے محبت اور ہمدردی کا درس ہی نہ دے سکے وہ تعلیم پھر کس کام کی ؟

مزید پڑھیے: ہمارا تعلیمی نظام (حصہ اول)

تعلیم یافتہ شخص ایک عام شخص کی نسبت معاشرے کا زیادہ زمہ دار شخص ہوتا ہے اس کے سر پر اس معاشرے کی اصلاح کا قرض ہوتا ہے۔لیکن ہم  جیسے جیسے تعلیم یافتہ ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے ہمارے اندر جہالت بڑھتی جا رہی ہے.

*ڈگری تو محض تعلیمی اخراجات کی رسید ہوتی ہے*

*علم تو انسان کی گفتگو اور عمل سے ظاہر ہوتا ہے*

ہر سال ڈگری کی صورت میں بس ایک کاغذ کا اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ہم اپنی اخلاقیات سے ایک قدم پیچھے اور اپنے تکبر میں قدم بہت آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ایک شخص تعلیم یافتہ ہو کر بھی ظالم، چور، بدمعاش اور برا ہو تو پھر دوسرے عام لوگوں کی اصلاح کون کرے گا؟

ہمارا  نظام تعلیم جس کےوزیر تعلیم خود یورپی ممالک کے تعلیم سے متاثر نظر آتے ہیں سرکاری زبان و لباس میں انگریزوں کی تقلید کو معیار رکھ کر نہ صرف انہیں تعلیم وترقی میں پیچھے رکھ رہے بلکہ ایک مسلمان قوم کو ایساذہنی  غلام  بھی بنا رہے ہیں جو آہستہ اہستہ اپنی شناخت بھی کھو دے گی۔ ہمارا تعلیمی نظام جو ہمارے نسلوں کو ” لکیر کے فقیر ” بنا رہا ہے ، جو تحقيقی ، تخليقی ، اور تصدیقی بنیادی اصولوں سے کوسوں دور ہوا سے باتیں کرتا دکھائی دے رہاہے۔

مزید پڑھیے: قومیں کب ترقی کرتی ہیں؟

 یہاں مغربی تہذیب سے متاثر تعلیم نظام الف سے انار تو سکھایا جاتا ہے مگر الف سے الله  اور انسانيت نہیں ۔ یہ ہے ہمارا تعلیمی نظام جہاں آقاے مدنی و عربی ﷺ کے سیرت پر مبنی مواد ہٹا کر افلاطون ، ارسطو ، اور دیگر بقراط سقراط پڑھایا جاتا ہے ۔ کہیں اس قوم کے بیٹوں ، بچیوں کے لیے سیرت محمد ﷺ ، علامہ اقبال ، ایدھی  اور نعمت اللہ خان جیسی شخصيات کے بارے میں نہیں  پڑھایا جاتا ۔

 ہمارے ہاں طلبا اکثر امتحانات کے بعد کتابوں کو کباڑیوں کو بیج دیتے ہیں  دوچار روپوں کی خاطر ۔  جہاں کتابیں فٹ پاتھ پر اور جوتے شو کیس میں بکتے ہوں افسوس ان کو یہ سبق نہیں پڑھایا جاتا  کہ کتابوں سے محبت کریں اور انکو صدقہ جاریہ سمجھ کر دوسرے ہم وطن  بھائیوں کو دیکر اجر  کمائیں۔

 *خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی*

 *نا ہو خیال جس کو خود اپنی حالت کے بدلنے کا*

وزیر تعلیم اور اعلی حکومتی افسران کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ نظام تعلیم کو مثالی معیاری تعلیم کےبنانے کے لئے  تحقيق ، تخلیقی ، و  تصدیق پر مبنی اسباق و سیلبس کا حصہ بنائیں  تاکہ معیار تعلیم کے ساتھ ملک کے بیٹے ملک کی ترقی خوشحالی میں اہم کردار ادا کر سکیں ۔ نیز طلبا سے بھی آئن لائن ایگزام  کالجزوں ، یونيورسٹيوں میں لیےجائیں ۔ آئن لائن امتحان کا مطلب ” فوٹو کاپی/ فوٹو پرنٹ پیپر” کیونکہ ایسا سسٹم کوئی ایسا ایپ  ہمارے پاس ہے ہی نہیں جس پر آئن لائن امتحان لے سکیں دیگر ممالک کے پاس سہولیات ہے وہ لے سکتے ہے امتحان آئن لائن ، اور ضرورت کیا پیش آئ جو آئن لائن امتحان دیں ؟؟ اسکا جواب اس کے سوا کیا ہوگا کہ ہم لوگ اندھی تقلید کے عادی قوم ہے۔

 حکومت وقت کو بھی چاھیے ٹک ٹاک ، پب جی دیگر فحش ویب سائٹس کو بلاک کر کے قوم پر احسان فرمائیں ۔ پب جی گیم کو ہی طلبا نے پڑھائی اور نوجوانوں نے کاروبار بنایا ہوا ہے ۔۔۔ ایسے ویب سائٹس ، پروگرامز قوم کے سامنے پیش کیےجائیں جس سے خود آگاہی ، حالات حاضرہ اور بے روزگاری میں کمی لائی جائے۔ قوم کی مائیں کسی قوم کی سب سے بڑی درس گاہ اور بہترین استاد ہے اس لیے بلخصوص تعلیم نسواں پر توجہ دی جائے۔

 آج ہماری قوم میں محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیاد جیسے مسلمان کیوں پیدا نہیں ہوتے کیونکہ  آج ہماری قوم میں عائشہ فاطمہ اور عمارہ  رضی اللہ تعالی عنہ جیسی  مائیں نہیں ہیں یہی مائیں قوم کی امعمار بھی ہیں اور انکی ہی اپنی تاریخ و اقدار سے لاعلمی سے جہالت نسلوں میں سفرکرتی ہے۔  جیسے قائد اعظم نے بھی فرمایا :

تم  مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دونگا

جو سبق ہمیں زندگی کےتجربات کی اور ارد گرد کے لوگ دے جاتے ہیں وہ کسی کتاب میں نہیں ملتے۔مگر زندگی ایک عجیب قسم کی استاد ہےجب ہم سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ہر موڑ پر ہمیں نیا اور عمدہ سبق فراہم کرتی ہیے ہم آگے بڑھنا اصلاح کرنااور سیکھنا چاہیں تو اپنی ناکامیوں اور غلطیوں سے بھی سیکھ سکتے ہیں پہلے لوگ بزرگوں کے پاس بیٹھا کرتے تھے لیکن آج کل کی نوجوان نسل کے پاس اتنی فرصت ہی میسر نہیں حالانکہ جو علم بزرگوں سے ملتا ہے وہ ہی شعور ی علم ہے  کامیابی سےجینے کا سلیقہ سکھاتا ہے کیونکہ وہ انہوں نے زندگی کے تجربات سے سیکھا ہےاور  جو لوگ دوسروں کے تجربات سے نہیں سیکھتے انہیں وقت اور حالات سکھاتے ہیں  اور ہماری قوم جن حالات سے گزر رہی ہے اسکے زوال کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ اس نے اپنے اسلاف کے کردار کو بلکل فراموش کر دیا ہے    اورجو قومیں اپنی تاریخ کو بھلا دیتی ہیں وہ جلد صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں

اس طرح اقوام وملت کے لئے بھی خداکی یہ سنت جاری ہے کہ جو قوم بھی راہ کی الٹی سمت چلے وہ ہرقدم پر اپنی منزل سے دور ہوتی جائے گی۔ اگر ہم مسلمانوں کی تاریخ پر ایک قوم کی حیثیت سے نگاہ کریں تو معلوم یہ ہوتاہے کہ جب سے اس قوم نے اسلام کی تعلیمات اور آئین و اقدار اسلامی سے انحراف کرکے دور جاہلیت کی رسومات کی طرف

رجوع کیاہے تب سے ہر طرف:

شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلمان نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلماں موجود

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ کہ مسلمان بھی ہو؟(۹)

 بحیثیت ایک مسلم قوم علم حاصل کرنا  ہم سب پر فرض  بھی ہے اب بھی وقت ہےخدارا اس فرض کو پہچانیں۔ کامیابی و خوشحالی چودہ سو سال (۱۴۰۰) سال بعد کے آنے والے ادوار واقعات سے نیہں بلکہ چودہ سو سال (1400) پہلے آنے پیارے  نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل کر کے حاصل ہوسکتی ہے۔

یاد رکھیں! علم  کے  سپاہی جب بھی زندگی کے  کسی بھی میدان میں اترتے ہیں تو  اپنی کامیابی وکامرانی سے دنیا کو جینے کا سلیقہ سکھا دیتے ہیں۔ البیرونی و ابن الہیثم و ڈاکٹر عبدالقدیر، نیوٹن و گراہم بیل اوران سب جیسے ہزاروں لو گ اسکی اعلی مثال اور اپنی قوم کا فخرو غرور ہیں۔

توآئیے آج ہم عہد کرتے ہیں کہ! ہم بھی علم کے سپاہی بنینگے پھر انشاءاللہ ضرور ہمارا  ہر فرد  بھی ملت کا ستارہ بن کر چمکے گا۔

جیسےاقبال بھی فرما گئے۔

*نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے*

*ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی*