بونگا جرنلسٹ      ( قصائی کی دکان سے صحافت کے میدان تک)

بونگے کا وہ نام جو اس کے والدین نے رکھا تھا اب بونگے کو بھی یاد نہیں، بونگا پیدائشی صحافی نہیں تھااور نہ ہی اس کے گھراورخاندان میں کوئی اس فیلڈ سے وابستہ رہا ہے ، بونگے کے باپ دادا قصائی رہ چکے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ بونگے نے بھی بڑی مشکل سے میٹرک پاس کیا اورسیدھاخاندانی پیشے سے جڑ گیا، لیکن یہ کام اس کے مزاج کا نہیں تھا، وہ چاہتا تھا کہ جلد از جلد ترقی کی جائے جو اس کام میں تو ممکن نہ تھی۔

بونگے سے میری ملاقات شاید 8یا 10ماہ پہلے ہوئی جب میں اس کی دکان پر گوشت لینے گیا، باتوں کا بہت تیز طرار تھا س لیے کچھ ہی دنوں میں دوستی ہوگئی، جب اسے معلو م ہو ا کہ میں ایک صحافی ہوں اور مقامی اخبار میں کام کرتا ہوں تو اس نے ہمیں زیادہ عز ت دیناشروع کردی۔ لیکن ہمارے سر پربم اس وقت پھٹا جب 2ماہ پہلے بونگا جرنلسٹ کے روپ میں ہمارے سامنے کھڑا تھا۔

بونگے نے اپنا کیریئر ایک واٹس ایپ کے نیوز گروپ سے شروع کیا، بونگے سے میری ملاقات کافی وقت کے بعد ایک سیاسی مجلس میں ہوئی ،جب وہ اس سیاسی مجلس میں ایک مشہور سیاستدان کا ترجمان بن کر ہمارے سامنے آیا، پہلے تو میں سمجھا کہ شاید یہاں کوئی بکرا ذبح کرنے آیا ہے، مگر ملک صاحب نے جب اس کا تعارف اپنے ترجمان کے طورپر کرایاتو یہ میرے لیے تعجب خیزثابت ہوا۔ یہ بونگے کی پہلی سیڑھی نہیں تھی، اس سے قبل بونگے نے اپنا یوٹیوب چینل اورواٹس ایپ گروپ بنا لیا تھا۔

وقت گزرتاگیااور چند ماہ بعد بونگے نے اپنے جائزوناجائزطریقے سے اپنا حلقہ اتنا وسیع کرلیا کہ اب اس میں علاقے کے تمام مشہور سیاسی وسماجی رہنماﺅں ، لکھاری ، صحافی اورپولیس افسران تک اسے اچھے سے جاننے لگے تھے ، ہر طرف بونگے کی چرچا تھی۔

 ایک دن بونگے سے گپ شپ لگانے کا موقع ہاتھ آگیا، ہم نے بونگے کو کریدنا شروع کردیا کہ آخر گوشت کی دکان سے صحافی بننے تک کا سفر اس نے اتنی آسانی سے کیسے طے کرلیاجبکہ ہمیں تو کافی پاپڑ بیلنا پڑے تھے۔ جس پر بونگا کہتا ہے کہ صحافت میں کئی جگہوں پرخلاں ہے جس کا ا س نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

بونگے کے مطابق پاکستان میں اب صحافت ہے ہی نہیں ، یہاں ہر کام “دونمبر”کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی سرکاری ادارے میں چلیں جائیں وہاں سائل اپنے جائز کام کے لیے رشوت دیتے دکھائی دیتے ہیں ، مثال کے طورپر ایک بڑے اخبار یا چینل میں ہر رپورٹر کی اپنی اپنی بیٹ ہوتی ہے اور کوئی کسی کی بیٹ پر کام نہیں کرسکتا،جس کا میں نے ہر طرح سے فائدہ اٹھایا ، ایک رپورٹرکو جب کوئی دوسرا رپورٹرکہتا ہے کہ فلاں خبر پر کام کرو، یا فلاں ادار ے میں کرپشن ہورہی ہے تو وہ اس پر کام کرنے کے بجائے یہ سوچتا ہے کہ شاید اس نے وہاں کوئی چکر چلایا ہے ، یا پھر اس کی کوئی سیٹنگ بن گئی ہے ، اس لیے وہ اس خبر پر دھیان دینے کے بجائے اس چکر میں لگ جاتا ہے کہ کسی طرح اس رپورٹرکا پتہ کاٹاجائے ۔ یہ گیپ ہمارے لیے کافی ہے اب ہم اس پر کام کرکے اپنی گرفت مضبوط کرتے ہیں۔

بونگا کہتا ہے کہ بڑے بڑے اخبارات اور چینلز پر صرف وہ دکھایاجاتا ہے جو عوام اب بالکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے، ہم نے اس گیپ سے فائدہ اٹھایا اوراس پر کام کیا ، آپ لوگوں کو عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ، ہم نے عوامی مسائل کو اجاگر کرنا شروع کیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ آپ صحافی ایک خبر دے کر چپ ہوجاتے ہو، ہم اسی خبر کو مزید کریدتے ہیں، باہر کی دنیا میں عوامی ایشوز پر بحث کی جاتی ہے اس پرریفرنسز ہوتے ہیں، کانفرنس بلائی جاتی ہیں، لیکن آپ لوگ صبح شام بس فلاں سیاستدان تو فلاں رہنما کو اسکرین پر دکھاتے رہتے ہو۔ یہ وہ گیپ ہیں جن کا ہم فائدہ اٹھاتے ہیں ،ہم عوامی ایشوز پر عوام سے رائے لیتے ہیں، نا کہ کسی سیاسی مداری کو اسکرین پربٹھاتے ہیں۔

 بونگا کہتا ہے آپ صحافیوں نے عوامی ایشوز کو چھوڑ کر سیاسی ایشوز پر زیادہ دھیان دیا، عوام کو سینیٹ الیکشن سے کوئی دلچسپی نہیں ، بلکہ عوام کو تو یہ تک معلوم نہیں کہ سینیٹ کس بلا کا نام ہے اور یہاں کیا کام ہوتا ہے ، کیوں کہ آپ لوگوں نے شعور اجاگرکرنے میں کوئی توجہ نہیں دی۔ جب عوام کو شعور ہی نہیں ہوگا تو انہیں اس سے کوئی غرض بھی نہیں ہوگی، لیکن آپ صبح سے شام تک اسمبلی،سینیٹ، وزیراعظم ،فلاں سفیر ، آرمی چیف سے متعلق خبروں پر ہی سار ا دھیان دیے ہوئے ہیں ۔

آپ لوگوں نے خود صحافت میں ایسے گیپ پیدا کیے ہیں ،آپ اسپتالوں کی حالت زار پر لکھنے سے قاصر ہیں، آپ تعلیمی نظام اورنصاب پر بحث نہیں کرنا چاہتے، آپ مہنگائی کے خلاف اپنے قلم کا استعمال اس طرح نہیں کرتے جس طرح کرنا چاہیے۔ آپ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر نہیں لکھنا چاہتے، اگر کوئی اس پر آواز اٹھاتا ہے تو سٹی پیج پر سنگل کالم خبر لگا کر نمٹا دیتے ہو۔

بونگا کہتا ہے کہ آپ لوگ وہ دیکھتے ہیں جو دکھایاجاتا ہے اور ہم وہ دیکھتے ہیں جو ہم سے چھپایاجاتا ہے ۔ دیکھا جائے تو ہماری نظر میں آپ لوگ دونمبر ہو ۔ کیوںکہ آپ لوگ صرف اپنے مطلب کی نیوز پر کام کرتے ہو۔ جب کہ ہم ہر اس خبر پر کام کرتے ہیں جس کا تعلق براراست عوام سے ہو۔

یہ کل کا قصائی واقعی آج حقیقی صحافت کا کردار ادا کررہا ہے۔ اورہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمارے ذرائع کہاں ہیں؟ ہم نے صحافت میں بیس سال گزارنے کے بعد بھی عوامی مسائل پر اتنا نہیں لکھا جتنا یہ روز لکھتا اوربولتا ہے ۔ بونگے جیسے کھلاڑیوں نے دونمبر ہی صحیح مگر ٹوٹی پھوٹی صحافت کرکے خود کو منوایا بھی اور کمایا بھی۔ آج بونگے کے پاس اپنی گاڑی ہے اور ہم آج بھی اسی پھٹ پھٹی پر گھوم رہے ہیں جس کا پیٹرول آفس جانے پہلے ہی راستے میں ختم ہوجاتا ہے اور بدنام بھی ہم ہی ہیں کہ یہ فلاں ادارے کا” صحافی” ہے۔

درحقیقت اب پاکستان میں بونگے جیسے صحافیوں کی ضرورت ہے ،بے شک ان کا طریقہ غلط ہے اور یہ کسی بڑی صحافتی تنظیم سے منسلک بھی نہیں ، مگر یہ ہم سے کہیں زیادہ آگے جاچکے ہیں اور اگر صحافت میں یہ گیپ برقرار رہا تو آنے والے وقتوں میں پاکستان میں صرف بونگے جرنلسٹ ہی رہ جائیں گے اورہم بڑی تنظیم اوربڑے ادارے کے ساتھ منسلک ہیں بس اسی میں خوش رہیں گے۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔