استقبال رمضان کیلیے مالی ایثار کی تیاری کیجئے

یوں تو آنحضور ﷺ جب رجب المرجب کا چاند دیکھتے تو  اس کے بعد زبان مبارک پر یہ دعاجاری ہوجایا کرتی اور بارگاہ الٰہی میں بار با ر اس دعاکی تکرار کرتے رہتے کہ ” اے اللہ رجب اور شعبان  میں (میری زندگی میں )برکت ڈال کر مجھے رمضان تک پہنچادے “۔ اس کے بعد جیسے جیسے رجب گزرتاجاتا آپﷺ کی بے تابی بڑھتی جاتی ۔

جب شعبان کا مہینہ شروع ہوتاتو آپ معمول سے زیادہ عبادت میں لگ جاتے اور فرماتے” شعبان  کا مہینہ  رجب اور رمضان کےکے درمیان ہے اس کی فضیلت کے  بارے میں زیادہ تر لوگ غفلت میں پڑے ہیں حالانکہ اس مہینے بندوں کے اعمال  اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں  لہٰذا  میں ا س بات کو پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ کے حضور پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں  “

آپ ﷺ اس مہینے کے ایک ایک دن شمار کرکے گزارتے رمضان المبارک کے مہینے کے علاوہ کسی اور مہینے میں اتنے روزے نہیں رکھے جتنے شعبان میں رکھتے   تھے ۔ پندرہ شعبان کے بعد آپ ﷺ روزہ رکھنے سے منع فرماتے اس غر ض سے کہ کہیں اس سے ضعف نہ پیدا ہوجائے اور رمضان کے روزے متاثر ہو جائیں ۔کہتے ہیں کہ مہمان کے ساتھ جتنی محبت ہوتی ہے اس کی قدر و قیمت اور اہمیت اور بڑھ جاتی ، اور پھر وہ مہمان جب اپنے چاہنے والوں کے گھر  کچھ دنوں کے لیے آنے والا ہوتاہے تو اس کے شایا ن شان استقبال  کا ایک روح پرور سماں ہوتاہے ۔اس کے آنے کی اطلاع پر  گھروں میں  اس مہمان کے اوصاف بیان کئے جاتے ہیں بچّے،  عورتیں اور مرد سب ہی اس کی قدر اور خوبیاں بیان کرتے ہیں اور یہ بھی بات زبان زد عام ہوتی ہے کہ آنے والا مہمان کافی دنوں کے بعد آئے گا وہ کیا کچھ تحائف  میزبانوں کے لیے لے کر آئے گا ۔

رمضان تو نیکیوں کا موسم بہار ہے  اس کی قدر رسول اکرم ﷺ اور آپ ؐ کے ساتھیوں سے زیادہ کوئی جان نہیں سکتا ۔ آپ صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین  کو جمع کرتے  اور خطبہ ارشاد  فرماتے ، رمضان کے روزوں کی فضیلت بتاتے ، اس میں کئے گئے نیک اعمال کے اجر ثواب کا بیان ہوتا  اپ ؐ  ان کو بتاتے کہ عام مہینوں میں کوئی ایک نفل نماز ادا کرے گا تو اس کو اخلاص کی بنیاد پر دس سے ستّر اور ستّر سے سات سوگنا  تک اجر دیا جاتاہے مگر رمضان میں نوافل کا اجر و ثواب فرائض کے برابر  دیا جاتا ہے اور فرائض کا اجر ، ستّر فرضوں کے برابر کردیا جاتاہے ۔

آپ ؐ فصیح العرب  تھے اس طرح رمضان المبارک کی آمد کی منظر کشی فرماتے کہ صحابہ دل و جان سے رمضان کے شوق میں مبتلا ہوجاتے اور ساراسال رمضان کا انتظار ہوتا۔رمضان کی راتوں کا بیان فرماتے تو سورہ القدر پیش فرماتے اور ان راتوں کی اہمیت اس کے اندر عبادت  کا شوق بڑھ جاتا آپ ؐ فرماتے کہ “جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ  اس ماہ مبارک میں قیام کیا  اللہ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف فرمادے گا “آپ ﷺ روزے کے بارے میں فرماتے کہ” جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ  رمضان کے روزے رکھے اللہ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف فرمادے گا”روزہ دار کے روزہ افطار پر ملنے والے اجر کا بیان ہوتا  ،صحابہ اکرام کا شوق اس قدر بڑھ جاتاکہ اس ماہ مبارک کی ایک ایک ساعت  کی قدر کرتے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں جمع کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے۔

اللہ تعالٰی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ “اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے امتّوں پر فرض کیئے گئے تھے شاید کہ   تم پرہیز گار بنو” سورہ البقرہ

آپﷺ نے فرمایا کہ ” جس شخص نے روزہ رکھ کر  جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا  اللہ کو اس کے بھوکے پیاسےرہنے سے  اللہ کو  کوئی غرض نہیں”دوسرے مقام پر فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھے اللہ تعالٰی اس کے پچھلے سارے گناہ  معاف فرمادے گا ” اللہ تعالیٰ کے ارشاد اور  نبی مہربان ﷺ کی ان دونوں احادیث کے تناظر میں  اگر دیکھا جائے تو روزوں کا فلسفہ سمجھ میں آسکتاہے۔

اوّل تو یہ کہ روزے   کا ایک طریقہ ہے اور دوم اس کا مقصد ہے ۔ روزہ کا طریقہ اصل میں مقصد نہیں ہے بلکہ  مقصد تک پہنچنے کا راستہ         ہے ۔  مقصد اصل میں تقویٰ کا حصول ہے ۔اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں جس میں اللہ تعا لیٰ کا مطلوب بندے کابھوکا پیاسا ررکھنا   نہیں ہے بلکہ تقویٰ ہے ۔  انسان بھوکا پیاسا تو رہ رہاہے مگر اس کے معاملات جیسے پہلے تھے ویسے روز ے کے دوران بھی ہیں ۔ایسی طرح دوسری حدیث میں  بھی ہےکہ روزہ دار  اگر ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھے یعنی  روزے کے دوران   اس کو اس بات پر پکاّ یقین ہو اس کا دل یکسو ہو کہ اللہ اس کا معبود ہے ،  وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور حضو ر ﷺ کا امتی ہے اور جوتعلیمات قرآن  کی حضور ﷺ کے ذریعے سے مجھ تک پہنچی   ہیں وہ سب حق اور سچ ہیں اس کیفیت کے ساتھ اس نے روزہ رکھا اور برابر اپنے اعمال پر نظر رکھے اسی کو اپنا احتساب کہتے ہیں ایسا روزہ دراصل اللہ کو مطلو ب ہے اور اس روزے کے نتیجے کے طور پر بندہ ء مومن کے تمام پچھلے گناہ معاف ہونگے ۔

اسلام کے نظام عبادات پر اگر بندہ ء مومن غو ر کرے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان تمام عبادات کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے یہ تقویٰ ہی انسان کو طاغوت کے خلاف نبرد آزما ہونے کی قوت دیتا ہے ۔ صدیوں کی غلامی نےجہاں تہذیب و تمدن اور اخلاق، تعلیم و تربیت  کے نظام  کو تباہ کیا وہاں اس نے دین  میں عبادات کے نظام اور اس کے تصّورات  کو بھی دھندلا کردیا ہے۔ آج        عبادات کے طریقے ہی کو مقصد سمجھ لیا گیا ہے  جس کی وجہ سے عبادات کے وہ نتائج سامنے نہیں آتے جس کا مظاہرہ ہمارے اسلاف کرتے تھے۔اس لیے کہ جب گھڑی کےتمام پرزے مل کر کام کریں تو یہ گھڑی وقت بتانے کا مقصد پورا کرتی ہے  پرزے اگر الگ الگ پڑے ہوں اگر وہ سونے جیسی قیمتی دھات کے بھی بنے ہوں گے تب بھی وہ وقت بتانے کا مقصد پورا نہیں کرسکیں گے۔

اس بار آنے والے رمضان کو اپنی زندگی کا مثالی رمضان بنانے کے لیے سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ سے  توفیق مانگیئے کہ اللہ آپ کی نیت کو پورا فرمائے اور اس رمضان کو ایسا رمضان بنادے کہ اس کے رخصت ہوتے وقت گناہوں سے مغفرت اور جہنم سے نجات کا پروانہ  رب کریم  جاری فرمادے ،دنیاوی کاموں کے غیر ضروری بوجھ کو اپنے کندھوں سے اتاریئے ، اپنے اوقات کار کو تقسیم کردیں زیادہ سے زیادہ وقت عبادت کےلیے نکالیئے رمضان کا لمحہ لمحہ  ذکر وازکار کے زریعے معطر رکھیں اپنے وقت کو بازاروں اور اسکرین ٹائم سے بچائیں۔

مالی ایثا ر سے اللہ کا غصّہ ٹھنڈا ہوتاہے اور عمر میں برکت ہوتی ہے آنحضور ﷺ رمضان المبارک  میں اللہ کے راستے میں انفاق دوسرے مہینوں سے زیادہ فرماتے تھے ۔ان حالات میں کہ جب کرونا کی وباء  نے    ملک کے طول وعرض میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ کیا ہے اس میں ضروری ہوجاتا ہے کہ  بندہ مومن اپنے غریب رشتہ دارو پر خرچ کرے بغیر اسکی عزت نفس کو مجروح کیئے اس کے علاوہ ایسے ادارے جن کی بہترین  کارکردگی   کا حوالہ  ،ان کا ماضی اور حال آپ کے سامنے خلق خدا کی خدمت کے حوالے سے عیاں  ہو۔

الخدمت  ان ہی اداروں میں سے ایک ادارہ ہے جو لوگوں کی  خدمت دیانت کے ساتھ کررہا ہے   اس ادارے  کے ساتھ بھر پور مالی تعاون فرمائیں تاکہ ملک کے اندر بھوک اور افلاس کے بڑھتے سائے  ختم ہوسکیں۔