کیا ڈراموں کے ذریعے خاندانی نظام تباہ کیا جارہا ہے؟

خاندانی نظام تباہ کرنے کے لیے ڈراموں کے ذریعے میڈیا ایک اہم کردار ادا کررہاہے، جویہودیوں کا مشن ہے، جسے ہم جان بوجھ کر پروان چڑھا رہے ہیں۔

میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کی طاقت کے ذریعے خاندانی نظام میں بناؤ یا بگاڑ پیدا کیا جاسکتا ہے،جس کا جیتا جاگتا ثبوت ہمارے چینلزپر چلنے والے ڈرامے ہیںجو آج ہر طبقے کے لیے لمحہ فکریہ بن چکے ہیںہیں۔بے لگام میڈیا ہمارے آنکھوں کے سامنے ہمارے مستحکم خاندانی نظام میں مسلسل دراڑیں ڈال رہا ہے اور ہم اپنی کم عملی کے باعث اخلاقی قدریں کھوتے جا رہے ہیں۔ ایک پاکیزہ مستحکم خاندان صاف ستھرے ابلاغ سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔لیکن افسوس کے آج تمام چینلز مختلف کرداروں اور کہانیوں کی شکل میں ایسے موضوعات پیش کر رہے ہیں جن کا چلن عام متوسط طبقہ سے بالکل مختلف ہے۔

خاندانی نظام پر میڈیا کا ضرب

آئیے چند ڈراموں پر نظریں دوڑاتے ہیں کہ میڈیا کس طرح خاندانی نظام میں توڑ پھوڑ پیدا کر رہا ہے۔ شادی شدہ خواتین کا غیر مردوں سے تعلقات ،میاں بیوی کا رشتہ دنیا میں بننے والا وہ پہلا رشتہ ہے جو کسی معاشرے اور خاندان کی بنیادی اکائی ہوتاہے۔ہمارے میڈیا نے عورت کو انتہائی لالچی، خود غرض، مکار بے حیا دکھانا شروع کر دیا ہے، آپ کو ہر ڈرامے میں عورت کا یہی روپ دکھایا جاتا ہے، جیسے میرے پاس تم ہو، میرے ہمدم، جلن، گھر تتلی کا پر، قسمت فطور، فطرت، جھوٹی وغیرہ ۔یہ وہ ڈرامے ہیں جس میں عورت کو اس کے عظیم مقام سے گرا کر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت میں عورت محبت والفت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔

گھروں سے بھاگ کر شادی کی ترغیب دینا

آتش، بھول، نور العین، رانجھا رانجھا کرتی، جلن وغیرہ ، یہ وہ ڈرامے ہیں جس میں لڑکیوں کو گھروں سے بھاگنے کے طریقہ بتائے جا رہے ہیں۔ لیکن اس پر بھی افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ جہاں پیمرا خاموش تماشائی بنا ہوا ہے وہیں ملک کی وہ جماعتیں جو خود کو مذہبی کہلانا پسند کرتی ہیں وہ بھی تماشا دیکھے جارہے ہیں۔

زنا کو فروغ دینے والے ڈرامے

میڈیا کا حال بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے، اب تو طوائف جن کے نام اور کام سے بھی بچیاں اور بچے ناواقف تھے، میڈیا کے ذریعے ان کو مظلوم اور باعزت مقام دلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، جس کی مثال رقص بسمل،دل نا امید تو نہیں اور دیگر ایسے کئی ڈراموں میں باآسانی مل سکتی ہے۔

مرد کو کم ظرف، سخت مزاج اور کمزور دکھانا

میڈیا نے جہاں عورتوں کو ان کے مقام سے گرایا ہے، وہاں مردوں کو بھی پستی میں گرانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مرد جو خاندان کا اقوام ہوتا ہے،لیکن ان ڈراموں میں اسے انتہائی کم ظرف دکھایا جا رہا ہے، جو بیوی کی کمائی پر انحصار کرتا ہے۔ کئی ڈراموں میں باپ اور شوہر کے روپ میں انتہائی جابر اور ظالم دکھایا جا رہا ہے جبکہ کئی ڈراموں میں بیوی کے پرانے عاشق کو ملوانے کیلیے طلاق بھی دیتا ہوا نظر آ رہا ہے جیسے، کم ظرف، بھڑاس، دل تنہا تنہامیں دکھایاگیا ہے۔

ماں باپ اور اولاد کو ایک دوسرے سے بدظن کرنا

سب سے زیادہ دکھ ایسے ڈراموں پر ہوتا ہے جن میں اولاد کو نافرمانی دکھانے کے باوجود اسے درست کہاجارہاہے۔ ایسے کئی ڈرامے میڈیا پرپیش کیے جارہے ہیں جس میں اولاد انتہائی نا فرمان اور والدین کو اولاد کے درمیان مساوات نہ کرتا ہوا دکھایا جا رہا ہے جیسے اولاد، جلن میں دکھایاگیا ہے۔

طلاق کو فروغ دینا

طلاق ہمارے معاشرے میں ناسور بنتا جارہاہے ، لیکن اس کے پیچھے بھی میڈیا کی کارفرمانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ ہمارا میڈیا طلاق کی کراہت کو دور کرنے کی کوشش کررہا ہے ،آج تقریباً ہر ڈرامے میں( جس کی ایک لمبی لسٹ پیش کی جا سکتی ہے) طلاق لازمی دکھائی جا رہی ہے جبکہ یہ اللہ تعالی کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔ ان ڈراموں میں کنکر ، استخارا، جلن،نند ، یاریاں، میرے پاس تم ہو، بھڑاس، محبتیں چاہتیں وغیرہ شامل ہیں۔

استاد اور شاگرد کا معبتررشتہ بھی نہ چھوڑا

استاد اور شاگرد جیسے قابل احترام اور مقدس رشتے میں بھی دڑار ڈالی جا رہی ہے، آج کل ایک (ڈنک ) نام سے ایسا ڈرامہ پیش کیا جا رہا ہے جس میں ایک طالبہ اپنے ہی استاد کو ہراساں کر رہی ہے اورپوری دنیا کے سامنے پاکستانی طالبعلم کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس ڈرامے میں کوئی بھی رشتہ مضبوط اور مستحکم نہیں، ہر رشتہ غلاظت سے بھرپور دکھایا جارہا ہے۔

اگر میڈیا چاہے تو اصلاحی ڈرامے پیش کرکے معاشرے کو سدھارنے کا ایک اہم کام سرانجام دے سکتا ہے لیکن افسوس صد افسوس صورتحال آپ کے سامنے ہی ہے ۔