قومیں کب ترقی کرتی ہیں؟

قوموں کےعروج وزوال کی داستانیں اگر چہ فطری قانون کے مطابق ہوتی ہیں تاہم اس میں اسباب و عوامل کو بھی کافی عمل دخل حاصل ہے۔کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں بے شک بہت سے اسباب و عوامل فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔

بے شک کسی ملک کا معیاری تعلیمی نظام ہی اسکی ترقی کی ضمانت بھی ہو سکتا ہے،اس لیے اگر اساتذہ اور علم  کی قدر کرنا جاننا  ہو تو  چائنہ ، جاپان ، انگلینڈ کے ممالک سے سیکھیں کہ کس طرح استاد کی عزت اور کس طرح  تعلیمی معیار بہتر سے بہترین کیا جا سکتا ہے ۔جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھایا جاتا ہےاور وہ ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” ہیں۔

حضرت علیؓ نے فرمایا:

“جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں”۔

مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی۔ بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔

 اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے۔اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے۔آپ یقین کریں استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے۔

*ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے*

 *جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے*

ہم عوام  نہ جی رہے نہ مر رہے ہیں بلکہ عام آدمی سے لیکر وزیراعظم تک سب قرضے لےرہے ہیں اور قرضوں کے بوجھ تلے ہم غلامی کی دلدل میں سسکتی زنگی  گزارنے پر مجبور ہیں۔ جہاں فکری، شعوری، معاشی، معاشرتی، تعالیمی نظام کے خلاف آواز اٹھانا ” آ بیل مجھے مار ” کے مترادف ہے۔آواز اٹھانے والا  دوسرے، تیسرے دن اس شخص کا پتہ نہ معلوم افراد کے فہرست میں درج کیا جاتا ہے ۔

 یہاں ووٹ کے ساتھ ساتھ قلم بکتا ہے، ایوانوں، عدالتوں اور کچہری میں نوٹ پر ضمیر فروش جج، سینیٹر، وکیل بکتے ہیں۔ یہاں سود، رشوت، دھوکہ، فریب، جھوٹ، ملاوٹ، کو ہوشیاری عقلمندی سمجھاجاتا ہے۔  بقول شاعر

*گلشن کی بربادی کیلیے ایک ہی الو کافی تھا*

*ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا*

یونیورسٹیاں اورکالجزایسےلگتے ہیں  کہ علمی درسگاہ نہیں بلکہ جیسے کوئ میوزیم ، نیشنل پارک ہےجہاں فیشن شو اور  انجوائمنٹ کیلیے کالجز، یونيورسٹياں تک جاکر حاضری لگا ئیں اور بس کام  ختم، پڑھائ جنات کرینگے ؟

کوئی سسٹم نہیں ہے ، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جس کا دل چاہے امتحان دے چاہے تو کسی اور کو اپنی جگہ بھیج دے یا پھر دولت کا استعمال کرکے بڑی سے بڑی ڈگری حاصل کرلے۔ نوکریاں قابلیت کی بنیاد پر کم اور سفارش ورشوت سےزیادہ  حاصل کی جاسکتی ہے۔

 کچھ روز قبل اسلام آباد میں اساتذہ کرام الاؤنس اور تنخواہ بڑھانے کے لیے سڑکوں پر نکلے جو کہ اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے تھیں ۔۔ اس پر ہمارے بےوقوف رہنما نے لاٹھی چارج کروائ افسوس۔