فوجی پریڈز کہاں کہاں منعقد ہو تی ہے؟

اسلام آباد کی ہوائیں جہازوں کی آواز سے گونج اٹھتے ہیں اور راستے پریڈ کی تیاریوں کے لئے بند کردیئے جاتے ہیں اور جن افراد کو دعوت دی جاتی ہے ان پر سختی سے نگرانی کا عمل شروع ہوجاتا ہے، یہاں تک ایک ہلکی سی غلطی آپ کو پریڈ میں جانے سے روک سکتا ہے۔

ہمیں پریڈ دیکھنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا پریڈ موخر کردی گئی ہے اور وہ پھر 6 سال تک موخر رہی اور یہ وہ وقت تھا جب چھ برس کے لیے یوم پاکستان پر ہونے والی پریڈ کو سیکیورٹی وجوہات کی بناپر منسوخ کردیا گیا تھا ۔عام طور پر فوجی پریڈز کا انعقاد اکثر غیرجمہوری یا آمرانہ حکومتوں سے نتھی کیا جاتا ہے لیکن فرانس اور برطانیہ جیسی جمہوری اقوام بھی ان کا اہتمام کرتی ہیں۔

امریکی فوج جو چار جولائی یا جنگ میں فتح جیسے مواقع کا جشن نہیں مناتیں، تو امریکہ میں ایسی پریڈز شاذونادر ہی منعقد ہوئی ہیں اور صدر ہیری ٹرومین اور جان ایف کینیڈی کی حلف برداری کے دن ہونے والی پریڈز میں فوجی سازوسامان اور دستے شامل تھے۔

ہر سال چار جولائی کو ہونے والی امریکی پریڈ کے علاوہ آخری بار دارالحکومت میں ایسی بڑی پریڈ 1991 میں مشرق وسطیٰ میں عراقی فوج کے خلاف جنگ خلیج میں امریکی فتح کے بعد منعقد ہوئی تھی۔ برطانیہ اور فرانس جہاں بڑی فوجی پریڈز ایک روایت ہیں سے موازانہ کریں تو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بہت ہی مختلف قسم کی سیاسی اور فوجی روایات کا انبار ہے۔

دورِ جدید کے فرانس اور برطانیہ دونوں نے اپنے شاہانہ ماضی سے سیاسی اور فوجی روایات ورثہ میں پائی ہیں اور ان کی ایشیا اور افریقہ میں مضبوط فوجی روایات پر مبنی وسیع ریاستیں قائم تھیں جبکہ واشنگٹن کی سیاسی اشرافیہ آج بھی امریکہ کو جمہوریہ تصور کرتی ہے جس کے کوئی نو آبادیاتی یا شاہانہ عزائم نہیں۔ مثال کے طورپر جب 2003 میں امریکی افواج نے عراق پر قبضہ کیا تو اس وقت کے صدر جارج بش اور امریکی سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمس فیلڈ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ وضاحت کی کہ امریکہ ایک ایمپائر (سلطنت) نہیں اور عراق یا مشرق وسطیٰ میں اس کے کوئی ‘امپیریل عزائم نہیں۔

سوچ کا یہ انداز ہی دراصل مسئلے کی اصل جڑ ہے جس کا سابق امریکی صدر کو واشنگٹن میں اُن خطوط پر ایک بڑی فوجی پریڈ منعقد کرتے ہوئے سامنا کرنا پڑا جس طرح برطانیہ اور فرانس جیسے دیگر جمہوری ممالک میں عام طور پر ہوتی ہیں۔

فرانس میں بیسٹیل ڈے پریڈ ہر سال 14 جولائی کو ہوتی ہے۔بیسٹیل ڈے ، فرانس میں ایک قدیم مشہور میلہ یا جشن ہوتا تھا جسے نپولین نے فوجی رنگ دیا اور اس وقت سے فرانس میں ہر سال اس دن ایک بڑی فوجی پریڈ ہوتی ہے،  جس میں فرانس کے صدر شرکت کرتے ہیں۔برطانیہ ایک اور ایسا جمہوری ملک ہے جہاں فوجی پریڈ کے انعقاد کی ایک دیرینہ مستحکم روایت چلی آرہی ہے۔

برطانیہ کئی وجوہات کی بنا پر فوجی پریڈ کا اہتمام کرتا ہےاور ان میں ملکہ برطانیہ یعنی کوئین ایلزبتھ کی سالگرہ جیسے شاہی تہوار، فوجیوں کی گھروں کو واپسی، سرکاری جانچ یا معائنہ (انسپیکشن) کی تقاریب وغیرہ شامل ہیں۔مشرق میں مطلق العنان حکومتوں کا اپنے دارالحکومتوں میں فوجی پریڈز کا انعقاد ایک عام روایت ہے۔

مثال کے طورپر سوویت روس اکتوبر 1917 کے انقلاب کی یاد میں پریڈز کا انعقاد کرتا تھا جبکہ چین اب بھی یکم اکتوبر کو اپنے یوم جمہوریہ کی خوشی مناتا ہے جس روز بیجنگ میں بڑی فوجی پریڈ منعقد ہوتی ہے۔

چین شاید سب سے زیادہ رنگا رنگ اور مہنگی فوجی پریڈ کرنے والا دنیا کا ملک ہے، جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2015 میں ہونے والی پریڈ میں 12 ہزار فوجی دستوں، 129 طیاروں اور 500 سے زائد ٹینکس نے شرکت کی تھی۔

شمالی کوریا ایک اور مطلق العنان حکومت ہے جہاں فوجی پریڈز کی مضبوط روایت موجود ہے اور ان میں سے ایک فوجی پریڈ رواں سال جنوری میں منعقد ہوئی تھی، جس میں شمالی کوریا کی فوج نے سمندر سے داغے جانے والے بیلسٹک میزائل کے ڈیزائن ماڈل کی نمائش کی جو ممکنہ طورپر اس کے ہتھیاروں کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہو گا۔

تاہم ایشیا میں ایسے جمہوری ممالک بھی ہیں جن کے دارالحکومت میں بڑی فوجی پریڈز منعقد ہوتی ہیں۔ مثال کے طورپر انڈیا کے یوم جمہوریہ پر ہر سال 26 جنوری کو نئی دہلی کے راج پتھ کے مقام پر فوجی پریڈ کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ انڈیا کی یوم جمہوریہ کی مرکزی تقریب کا درجہ رکھتی ہے اور تین روز تک جاری رہتی ہے۔ پہلی بار یہ پریڈ 1950 میں ہوئی تھی اور اس وقت سے ہر سال منعقد ہوتی ہے۔

پاکستان بھی دنیا اور خطے کی بڑی طاقتوں کی طرح قومی دن پر پریڈ کا انعقاد کرتا ہے۔ پاکستانی فوج نے قیام پاکستان سے ہی ‘پاکستان ڈے پریڈ کے انعقاد کا سلسلہ شروع کردیا تھااور انڈیا بھی اس روایت پر عمل پیرا ہے جو ہر سال 26 جنوری کو یوم جمہوریہ پر پریڈ منعقد کرتا ہے اور یہ وہ دن ہے جب 1950 میں انڈین آئین بنا تھا۔

ء23 مارچ 1940 کو لاہور کے مینار پاکستان پر منظور ہونے والی تاریخی قرارداد پاکستان کی یاد منانے کے علاوہ اس دن پاکستان کی مسلح افواج اپنی جنگی قوت اور طاقت کا اظہار بھی کرتی ہیں۔ ماضی میں پاکستانی فوج اس پریڈ میں مقامی طورپر تیار ہونے والے اپنے اسلحہ اور ہتھیاروں کی نمائش کرتی آئی ہے جن میں الخالد ٹینک اور شاہین و غوری جیسے بیلسٹک میزائل شامل ہیں۔

حصہ
mm
محمد حماد علی خان ہاشمی نے ذرائع ابلاغ میں جامعہ اردو یونیورسٹی سے ماسٹرزکیا ہے اور اس کے ساتھ پروڈکشن کے کئی کورسیز بھی کئے جبکہ 12 سال سے صحافتی دنیا میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور پچھلے 3 ماہ سے روزنامہ جسارت ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ ہیں۔ سینئر کالم نگار، صحافی اور اردو کے استاد مرحوم سید اطہر علی خان ہاشمی کے بیٹے ہیں اور مختلف اخبارات ، میگزینز اور سماجی ویب سائٹس پر اپنی تحریروں سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ جرنلزم کی دنیا میں قدم سندھی چینل آواز ٹی وی سے کیا اس کے بعد فرنٹیر پوسٹ پر رپورٹنگ بھی کی اور 6 سال سماء ٹی وی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔