غور کرنے کا مقام

مملکت خداداد پاکستان، جو کہ دنیا کے نقشے پر ابھرنے والا تیرہ سوسال کے بعد ایک اچھوتی ریاست تھا جس کی بنیاد بھی نرالی تھی کیونکہ دنیا میں ممالک کا وجود ان کے حصول کی جدوجہد سب کی سب مخصوص جغرافیائی، لسانی، قومی، نظریاتی بنیاد پر ہوتی ہے۔ مگر حصول پاکستان نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا اور ایک بار پھر اس سنت کو زندہ کیا کہ اسلامی نظریے کے تحت محتلف زبانیں بولنے والے اور مختلف قبائل کس طرح ایک ملت بنتے ہیں اور کس طرح جدوجہد آزادی ایک پاکیزہ جدوجہد بنتی ہے ۔دنیا کے دیگر ممالک کا جائزہ ہمیں یہ بتاتاہے کہ ان کی سرحدیں صرف جغرافیائی سرحدیں ہوتی ہیں ۔مگر جس نظریے کے تحت پاکستان کو وجود ملا اس کی نہ صرف جغرافیائی سرحدیں ہیں بلکہ اس کی نظریاتی سرحدیں بھی ہیں ۔جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا نسبتا آسان ہوتاہے با نسبت نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے، اس موقع پر علامہ اقبال علیہ رحمہ کے یہ اشعاراس بات کو اور زیادہ واضح کردیں گے۔

اپنی مّلت پر قیاس اقوام مغرب نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

ان کی جمیعت کا ملک و نسب پر انحصار

قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمیعت کہاں

اور جمیعت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

اسلام کی بنیاد پر جمع ہونے والے افراد قوم نہیں بلکہ ملت کہلاتےہیں، ان کی اقوام مغرب کے ساتھ کوئی نسبت نہیں ان کے قوم بننے کی وجہ ان کا قبیلہ ہوتاہے، خاندان ہوتاہے، ان کی زبان ہوتی ہے لیکن ملت اسلامیہ کے اتحاد اور جمع ہونےکی وجہ دین اسلام ہے اور اس قوت کی وجہ دین ہے ۔دین اسلام کے بغیر یہ ملت چھوٹی چھوٹی قومیتوں میں تقسیم ہوجاتی ہے اور قوم کی حیثیت دو کوڑی کی بھی نہیں رہتی ۔

 مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے دونوں حصّوں کے درمیان تو کافی فاصلہ تھا مگر یہ فاصلے اس نظریے نے پاٹ دئیے تھے ۔قائد اعظم محمد علی جناح کو زندگی نے مہلت نہ دی کہ وہ اس نومولود ریاست میں رہنے والے افراد کے دل و دماغ کے اندر پاکستان کی نظریاتی اساس کو بٹھاتے، یہ کام ان کے بعد کے حکمرانوں کے کرنے کا تھا جوکہ وہ نہیں کرسکے ۔کسی قوم کی آزادی کی حفاظت اور اس کی بقاء کے لیے لازمی ہے کہ اس قوم کا نظریہ آنے والی نسل میں منتقل کیاجائے اور سمجھدار قومیں اس کا انتظام کرتی ہیں، وہ اپنا تعلیمی نظام بناتی ہیں جس میں وہ اپنے دین ، تاریخ کو شامل کرتی ہیں اس کے لیے ایک موثر زبان، قومی زبان کے بطور اپناتی ہے جوتمام چھوٹی اکائیوں کی رابطے کی زبان ہواور جس میں دینی اور دنیاوی علوم کے حوالے سے زیادہ سے زیاد ہ کتب کا ذخیرہ موجود ہو اس بات کو قائد اعظم محمد علی جنا ح اچھی طرح جانتے تھے اسی وجہ سے اردو کو انہوں نے قومی زبان قرار دیا، حالانکہ یہ آپ کی بھی مادری زبان نہیں تھی ۔مگر صرف پاکستان اور مسلمانان پاکستان کی بہترین رہنمائی کے لیے یہ اقدام کیا گیا تھا ۔تاکہ پاکستان ایک ماڈل اسلامی ریاست بن سکے ۔آپ یہ بھی جانتے تھے کہ مسلمان انگریزی زبان میں ترقی نہیں کرسکتے۔ مگر اردو کو بطور قومی زبان ملک کے طول وعرض میں رائج کرنے کے اس فیصلے کو بھی سازش کے لیے نقطہ آغاز بنایاگیا اور اس کو مشرقی پاکستا ن کے متعصب سیاسی رہنما شیخ مجیب الرّحمٰن نے استعمال کیا اس کو اپنے مذموم ارادوں کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا اور اردو کو قومی زبان تسیلم کرنے سے انکا رکردیا اور سیاسی سطح پر اس کی مخالفت شروع کی، یہ بات دنیا جانتی ہے کہ شیخ مجیب الرّحمٰن کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات اور خفیہ دورے پچاس کی دہائی سے ہوتے رہےتھے اور وہ پاکستا ن کو توڑنے اور بنگلہ دیش کے لیے ہندوستان کے آلہ کار کے طور پر کام کرتا رہا تھا ۔لیکن ہمارے یہاں ماضی میں اور آج بھی یہی رویّہ ملک دشمن عناصر کے ساتھ ہے ان عناصر کو عوام کے سامنےپہلے مظلوم اور پھر ہیروں بنا کرپیش کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔جس کے خطرناک نتائج سانحہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں آیا اور اب بھی کراچی کی بربادی ، بلوچستان کا استحصال ، پنجاب کی افراتفری کی صورتحال میں آرہا ہے ۔شیخ مجیب الرّحمٰن تو ایک استعارا ہے، دین دشمن اور ملک دشمن کردار کا،  مگر آج بھی ملکی سیاسی اور بیورو کریٹ کی صفوں میں ایسے لوگ ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ان کی سب سے بڑی وجہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں بلکہ دو اور دو چار کی طرح واضح ہے ۔ پاکستان کا نظریہ وجود یعنی اسلام، پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے دنیا کے دوسرے ممالک تو کسی نظام کے تحت چلائےجاسکتے ہیں اور وہ ترقی بھی کرسکتے ہیں مگر پاکستان کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں یہاں کا نظام علاوہ اسلامی نظام کے کسی دوسرے نظام کے ساتھ چل ہی نہیں سکتاہے ۔اس کا ثبوت پاکستان کے وجود میں آنے سے آج تک ایک تاریخ ہے کہ یہاں کبھی کمیونزم آزمایا جاتاہے تو کبھی سوشلزم آزمایا جاتا ہے ۔اور آج کل مقامی تعصبی نعرے لگ رہے ہیں جس کو ہم نیشلزم کہتے ہیں کہیں سندھیت ،کہیں بلوچیت ،کہیں پنجابیت ،کہیں مہاجریت اور کہیں کسی اکائی کو کہا جارہا ہے کہ جاگ ۔۔۔فلاں جاگ تیری پگ وچ لگ گیا داغ ،اس کے بعد سوائے تباہی کے ہاتھ کچھ نہیں آنا ہرآنے والا دن پاکستان کے عوام پر سخت سے سخت اذیت کا آرہا ہے اس کی وجہ اسلامی نظام کے نفاذ سے غدّاری ہے، جس کے نفاذ کا وعدہ ہم نے اپنے رب سے آزادی حاصل کرتے وقت کیا تھا ۔اس بدترین وعدہ خلافی کی سزا صرف عوام ہی کو نہیں بلکہ تاریخ شاہد ہے رہنمایان قوم کو بھی ملی ،کوئی غدّار اپنے ہی فوج کے ہاتھوں بدترین انجام کو پہنچا کہ اس کی نسل ہی فنا ہوگئی اور کوئی پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا ، کوئی فضا ء میں ہی بکھر گیا اور اپنے انجام کو پہنچا اور کوئی اپنے وطن کی مٹی کے لمس سے بھی محروم ہے ۔اور جب تک اس طرح کی غدّاریاں پاکستان کے ساتھ ہوتی رہیں گی بالکل ایسی طرح سزائیں آسمانوں سے آتی رہیں گی ۔پاکستان کی حیثیت ایک مسجد کی طرح ہے ۔ اگر کوئی چور کسی دوکان سے گھڑی چرالے تو بیشک یہ جرم تو ہے مگر جرم کی نوعیت اور اس کی سنگینی بڑھ جاتی ہے جب کوئی چور مسجد کی گھڑی چرالے ۔پاکستان اللہ تعالٰی کی امانت بھی ہے جو کہ ہمارے ہاتھ میں ہے اور یہ ایک امتحان کا پرچہ بھی ہے اس لیے عوام اور حکمرانوں کو اس پر بھی غور کرنا چاہیئے۔