گردوں کی صحت سےمتعلق آگاہی کا عالمی دن‎

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج گردوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت پچیاسی کروڑ افراد گردوں کے مختلف امراض کا شکار ہیں۔

گردوں کا عالمی دن منانے کا مقصد گردوں کے امراض اور ان کی حفاظت سے متعلق آگہی و شعور پیدا کرنا ہے اور یہ دن ہر سال مارچ کی دوسری جمعرات کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے جبکہ رواں برس یہ دن گردوں کی صحت، ہر جگہ سب کے لیے کے عنوان سے منایا جارہا ہے۔

جسم کے کچھ اعضا انتہائی اہم کام سرانجام دیتے ہیں جن میں سے ایک، گردے ہیںاور گردوں کی صحت اور ان کی اہمیت اُجاگر کرنے اور لوگوں کو اس کے امراض سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے لیے ہر سال دنیا بھر میں مارچ کے دوسرے ہفتے میں جمعرات کے روز گردوں کا عالمی دن (World Kidney Day)منایا جاتا ہےاور اس دن کو منانے کا آغاز 2006ء میں کیا گیا، جس میں دنیا بھر کے ممالک میں مختلف تقریبات اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہےجبکہ ان تقریبات میں طبی ماہرین گردوں کے امراض اور ان کی حفاظت سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں۔

یہ ایک بین الاقوامی مہم ہے جس کا مقصد مجموعی صحت کے حوالے سے گردوں کی اہمیت اور گردوں کی بیماری اور ان سے منسلک صحت کے مسائل سے متعلق اثرات کو کم کرنے کے لیے عوامی شعور بیدار کرنا ہے، رواں سال گردوں کے عالمی دن کا موضوع ہے،گردوں کی صحت ہر جگہ ہر ایک کیلیے: گردوں کی بیماری کے ساتھ اچھی طرح زندگی گزارنا، جس کے تحت گردوں کے مرض میں مبتلا مریضوں کی زندگی کی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 85کروڑ افراد گردوں کے مختلف امراض میں مبتلا ہیں۔ گردے کی بیماری کے مریض ڈائیلیسس اور گردے کی پیوندکاری (ٹرانسپلانٹیشن) پر انحصار کرتے ہیں اور پاکستان میں ایک کروڑ 70لاکھ سے زائد افراد گردوں کے امراض کا شکار ہیں، جن میں گردوں کی دائمی بیماری (کرونک کڈنی ڈیزیز) اور گردے میں پتھری قابل ذکر ہیں۔ گردوں میں خرابی کی کئی وجوہات ہیں، جن میںٹائپ 1اور ٹائپ 2ذیابطیس، ہائی بلڈپریشر، دل اور خون کی شریانوں سے متعلق بیماریاں، موروثی گردوں کی بیماری اور موٹاپے جیسی بیماریاں شامل ہیں۔

گردوں کے افعال:

ایک صحت مند نوجوان مرد کے گردوں کی لمبائی 11سینٹی میٹر جبکہ ایک صحت مند لڑکی کے گردوں کی لمبائی 10سینٹی میٹر ہوتی ہے اور گردوں کا اہم فعل انسانی جسم میں موجود خون کو صاف کرنا ہوتا ہے۔ گردوں سے روزانہ 24گھنٹوں کے دوران 1500لیٹر خون گزرتا ہے۔

گردے میں موجود باریک نالیاں اور جالی دار کپ خون کو چھاننے کے بعد صاف خون کوانسانی جسم میں دوبارہ شامل کردیتے ہیں۔ فلٹر ہونے کے دوران خون میں موجود زائد نمکیات اور پانی پیشاب کی شکل میں انسانی جسم سے باہر خارج ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی بھی ایک گردے کی کارکردگی متاثر ہوجائےتو انسان کی زندگی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

کرونک کڈنی ڈیزیز:

گردوں کی جان لیوا بیماری کرونک کڈنی ڈیزیزکا مطلب گردے خراب ہوجانا ہے اور ان کی انسان کو صحت مند رکھنے کی صلاحیت میں کمی آتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ سے ہر سال دنیا میں کئی لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس سے ہونے والی اموات کی تعداد بریسٹ اور پروسٹیٹ کے کینسر سے زیادہ ہے۔ ہر 10میں سے ایک شخص کو کرونک کڈنی ڈیزیز لاحق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 2040ء تک دنیا بھر میں طبی اموات کی یہ پانچویں بڑی بیماری ہوگی۔

اس بیماری کے ہونے کی بڑی وجہ بلندفشار خون اور ذیابطیس کی بیماریاں ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں زیادہ تر لوگوں میں اس بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن جیسے جیسے خرابی بڑھتی جاتی ہے تو خون میں خرابی ہونا شروع ہوجاتی ہے جس سے انسان بیمار ہوجاتا ہے۔

اس کے نتیجے میں خون کی کمی، ہڈیوں کی کمزوری، ناقص غذائی صحت اور اعصابی نقصان جیسے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ بیماری دل اور خون کی نالیوں کے امراض کا خطرہ بھی بڑھا دیتی ہے۔ ایک بار گردے کام کرنا چھوڑ دیں تو پھر ڈائیلیسس یا گردے کی پیوند کاری کی ضرورت پڑتی ہے۔ کرونک کڈنی ڈیزیز کی تشخیص اگر ابتدا میں ہی ہوجائے تو علاج کے ذریعے گردوں کی خرابی کو روکا یا اس عمل کو سست کیا جاسکتا ہے۔ ابتدائی علاج میں غذا، ورزش، دوائیں، طرزِ زندگی میں تبدیلی اور ذیابطیس و ہائی بلڈ پریشر جیسے خطرے والے عوامل کا علاج شامل ہے۔

ایکیوٹ کڈنی انجری:

ایکیوٹ کڈنی انجری کو ایکیوٹ رینل فیلئیر بھی کہتے ہیںاور اس میں گردے اچانک کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا گردوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ایسا چند گھنٹوں یا چند دن میں ہوتا ہے۔ اس میں خون میں خرابی پیدا کرنے والے عناصر بننا شروع ہوجاتے ہیں، جس سے گردوں کے لیے جسم میں سیال کا درست توازن برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔

ایسا عام طور پر کسی دوسری سنگین بیماری کی پیچیدگی کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اپنے نام کے برخلاف یہ بیماری گردوں میں کوئی چیز لگنے کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ ایکیوٹ کڈنی انجری دنیا بھر کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے قریب افراد کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔اس بیماری میں85فیصد نچلے اور درمیانی طبقے کے افراد مبتلا ہوتے ہیں۔

گردے کے امراض اور کورونا:

جن افراد کو گردوں کی کوئی بیماری ہے یا وہ گردے کی پیوند کاری کرواچکے ہیں ان کو کووِڈ-19سے سنگین پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ ڈائیلیسس کروانے والے مریضوں کا مدافعتی نظام کمزور ہوسکتا ہے، جس کے باعث انفیکشن سے لڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ایسے مریض باقاعدگی سے طے شدہ وقت پر ڈائیلیسس جاری رکھتے ہوئے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ گردے کی پیوند کاری کروانے والے افراد کو اینٹی ریجیکشن (امیونوسوپریسی) دوائیں لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ دوائیں مدافعتی نظام کو کم فعال رکھ کر کام کرتی ہیں، جس کی وجہ سے انفیکشن سے لڑنا مشکل ہوسکتا ہے۔ تاہم، ان ادویات کو جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہاتھ دھونا، اچھی حفظان صحت کو برقرار رکھنا اور اپنے معالج کی ہدایات پر عمل کرنا بھی اہم ہے۔

احتیاط لازم:

گردوں کو صحت مند رکھنے کے لیے روزمرہ خوراک میں نمک کا استعمال کم کریں یعنی دن بھر میں 5سے6گرام نمک کھائیں اور باہر کے کھانوں بالخصوص جنک فوڈز کھانے کے بجائے گھر کے بنے کھانوں کو فوقیت دیں کیونکہ وزن کا بڑھنا بھی گردوں کی خرابی کی وجہ بن سکتا ہےجبکہ تمبا کو نوشی ترک کریں اور زیادہ سے زیادہ پانی کا پینا یقینی بنائیں۔

ماہرین ایک بالغ انسان کے لیے روزانہ 2 سے 4لیٹر پانی پینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس سے پیشاب میں پتھری بنانے والے منرلز(زیادہ تر کیلشیم اوکزیلیٹ پر مشتمل ہوتے ہیں) کو خارج ہونے میں مدد ملتی ہے، یہی منرلز کم پانی پینے کی وجہ سے گردے میں جمع ہوکر پتھری کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

معائنہ کرائیں:

گردوں کے امراض کے خطرے کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہوتا ہے، اگر آپ یا کسی قریبی رشتے دار میں امراض قلب، ہائی بلڈپریشر، ذیابیطس یا گردے فیل ہونے کی خاندانی تاریخ ہے، تو اکثر طبی معائنہ معمول بنانا گردوں کے امراض کو آغاز میں ہی پکڑنے میں مدد دے سکتا ہے، جتنی جلد ان امراض کی تشخیص ہوگی، اتنی آسانی سے ان کا علاج بھی ہوجائے گا بلکہ روک تھام بھی ممکن ہے۔

ہربل سپلیمنٹس سے بچیں:

یہ سپلیمنٹ بھی گردوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، یہ اس صورت میں زیادہ نقصان دہ ہوسکتے ہیں جب آپ پہلے ہی گردوں کے امراض کا شکار ہوں، کیونکہ اس سے حالت زیادہ بدتر یا ادویات کے اثر کو متاثر کرسکتے ہیں۔ کسی بھی ہربل سپلیمنٹ کو استعمال کرنے سے قبل ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔

گردوں کے امراض کی علامات اکثر افراد نظرانداز کردیتے ہیں اور جب تک توجہ دیتے ہیں، اس سے وقت تک جسم کو بہت نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔

(زندگی ایک نعمت ہے اس کا خیال لازم ہے)

حصہ
mm
محمد حماد علی خان ہاشمی نے ذرائع ابلاغ میں جامعہ اردو یونیورسٹی سے ماسٹرزکیا ہے اور اس کے ساتھ پروڈکشن کے کئی کورسیز بھی کئے جبکہ 12 سال سے صحافتی دنیا میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور پچھلے 3 ماہ سے روزنامہ جسارت ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ ہیں۔ سینئر کالم نگار، صحافی اور اردو کے استاد مرحوم سید اطہر علی خان ہاشمی کے بیٹے ہیں اور مختلف اخبارات ، میگزینز اور سماجی ویب سائٹس پر اپنی تحریروں سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ جرنلزم کی دنیا میں قدم سندھی چینل آواز ٹی وی سے کیا اس کے بعد فرنٹیر پوسٹ پر رپورٹنگ بھی کی اور 6 سال سماء ٹی وی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔