ووٹ،نوٹ اور عزت

دنیائے آفرینش سے عصرِ حاضر کی کتب التواریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو قرطاس ِ تاریخ کے ہر تیسرے صفحہ پر طاقت اور اس کے اظہار کے طریقوں کا بول بالا پڑھنے کو ملے گا۔لیکن یہ بھی ساتھ ہی ساتھ یاد رکھنے والی اور قابل ذکر بات ہے کہ طاقت کی آزمائش اور استعمال کے بھی اصول و ضوابط ہوا کرتے تھے۔قابیل کے اپنے ہی بھائی کو قتل سے لے کر قارون کے خزانوں،شداد کی جنت،نمرود کے ظلم وستم،اسکندر کی تباہ کاریوں اور ہلاکو وچنگیز خان کی انسانیت سوزیوں تک طاقت کے نشہ سے بھرپور یہ بدمست ہاتھی اپنے اپنے تئیں انسان پر ظلم وتشدد کا بازار گرم کئے رہے ہیں۔بدمست طاقت کے نشہ کا یہ سلسلہ رکا نہیں ہاں مگر دورِ حاضر میں اس کے انداز بدل گئے ہیں۔جسمانی طاقت کی جگہ اب ذہنی دائو پیچ اور چالاکیوں نے لے لی ہے۔جبکہ تلوار،تیر وتفنگ کے متبادل اب کمپیوٹر میدان کار زار میں آچکا ہے۔اسی لئے تو آج کی جنگ کو ففتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے ۔یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں جسمانی طاقت پر ذہنی استعداد غالب آچکی ہے اور اس جنگ میں وہی جیتے گا جن کے جوانوں میں ایسی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہوں گی۔ اس جنگ میں کیا ہے کہ کس کو کیسے،کب اور کس وقت تباہ کرنا ہے بس ایک انگلی کو دبانے کی دوری پر ہوگی۔ایک بٹن پر enter پریس کرنا ہے اور دنیا ملبے کا ایک ڈھیر۔

لیکن تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ جب جب ظلم بڑھا اس ظلم کو تاریج کونے کے لئے اللہ نے کسی نہ کسی مسیحا کوضرور بھیجا ہے۔جب جب باطل نے سر اٹھایا ہے گردن کشی کے لئے حق کی تلوار کا کاری وار ضرور چلا ہے۔یہی قانون قدرت اور منشائے ایزدی بھی ہے۔کہ حق کو باطل کی جگہ لینا ہی ہے۔اگر اسلامی تاریخ سے حق وباطل کی لاثانی مثال و دلیل کو پیش کرنا ہو تو معرکہ کرب وبلا کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔قدرت نے کرب و بلا کے ایک ایک کردار کو رہتی دنیا تک باعث ِ تقلید بنا دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ باطل کی صفوں کے سب کرداروں کو تاقیامت باعث عبرت بنا کر پیش کر دیا ہے اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ حسین استعارہ ہے حق کا۔اور یزید باعثِ عبرت ہے ان سب کے لئے جو حق کی راہ میں کانٹے بچھاتے ہیں ۔اگر غور کیا جائے تویزیدیت، عبرت ہی نہیں بلکہ ان سب کے لئے موت ہے جو راہ یزید کاانتخاب کرتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف امام عالی سر کٹوا کر نوکِ سناں کی زینت بن کر آج بھی امامت کے اعلی معیار اور درجے پر فائز ہیں۔دنیاوی لحاظ سے اگر سوچا جائے تو مسئلہ کیا تھا بس ہاتھ میں دوسرا ہاتھ دینا تھا،یعنی بیعت۔بس ایک بار اس کو مان لیا جاتا تو جان کی امان مل جاتی،لیکن نہیں ایسا نہیں ہوا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ امام تو اس عظیم ہستی کے لاڈلے تھے جنہوں نے تن تنہا عرب کے کفار کو راہ حق دکھا دیا اور کوئی دنیاوی لالچ انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔وہ امام جانتے تھے کہ یہ بیعت نہیں ہے بلکہ ووٹ ہے اور اگر میں یہ ووٹ یزید کے حق میں استعمال کرتا ہوں تو رہتی دنیا تک اسی راستے کا انتخاب کیا جائے گا۔یہ ہے ووٹ کی عزت اور مقام،جسے آج سے پندرہ سو برس نواسہ رسول ﷺ ہمیں بتا گئے کہ سر کٹ تو سکتا ہے لیکن کسی باطل کے سامنے نگوں نہیں ہو سکتا۔

کیا دور رواں میں ووٹ کا وہ فلسفہ جو امام عالی مقام نے ہمیں بتایا اس کا رنگ ماند پڑ گیا ہے کہ ہم اس قابل نہیں رہے کہ ووٹ کے تقدس کا بار اپنے کاندھوں پر اٹھا سکیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ دنیاوی ضروریات،غرض اور ہوس ولالچ نے ہمیں ووٹ اور نوٹ میں کوئی تمیز باقی نہیں رہنے دی۔اسی لئے تو انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی ہماری اندر کی ہوس ایک دم انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتی ہے کہ بس لوٹ لو میدان نہ جانے پھر کبھی موقع ملے کہ نا ملے۔ایسے لوگوں لے لئے ووٹ ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔اسی لئے تو وہ اپنے ضمیر کی بولی سرعام لگا دیتے ہیں۔جیسا کہ ابھی حالیہ سینٹ کے الیکشن میں ہوا۔افسوس یہ نہیں ہوتا کہ وہ کون سی پارٹی کے تھے،چلئے وہ حکومتی پارٹی کے ہی اراکین تھے لیکن کیا وہ اپنے ضمیر کا سودا کر سکتے ہیں یا ان کے لئے ایسا کرنا جائز ہے۔ہرگز نہیں بلکہ ایسے افراد کی پکڑ تو عا م انسان سے زیادہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ قوموں کو مستقبل متعین کرتے ہیں۔اور چہ گویرا نے تو کہا تھا کہ

’’موت کو گلے لگا لینا لیکن کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہ کرنا کیونکہ ضمیر کا سودا قوموں کا سودا ہوتا ہے‘‘

جبکہ ہمارے ہاں تو سینٹ کے انتخابات میں گیلانی صاحب کے صاحبزادے تسلیم بھی کر چکے تو کچھ نہ ہوا،مریم بی بی نے بائیس کروڑ عوام کے سامنے اعتراف جرم کیا کہ اس بار سیٹ کی سیاست چلی ہے،جبکہ حکومتی اراکین تو بک بھی چکے اور خان صاحب کے ساتھ بھی نششت بردار ہیں۔کیا ایسے راہبروں کے ضمیر مجرم نہیں ہوتے۔بیوی کے قرض معاف سے لے کر ترک صدر کی اہلیہ کے ہار کے معاملہ تک ضمیر کا سودا کرنے والا آج نہ جانے کس بنیاد پر کہہ رہا ہے کہ میرے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے سینٹ کے چیئرمین کے لئے ووٹ دیں۔جناب گیلانی صاحب سید زادے ہو کر کس ووٹ اور ضمیر کی بات کرتے ہیں۔آپ کے آبائواجداد نے تو ایک ووٹ کے لئے سر قلم کروانے کو ترجیح دی لیکن نہ سر جھکا اور نہ بیعت کی۔آپ کیسے سید زادے ہیں کہ بائیس کروڑ عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں اور اوپر سے اپنے سید زادے ہونے کو کیش کروا رہے ہیں۔یاد رکھئے گا کہ ایک دن حساب بھی ہونا ہے۔اور وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانا ہے۔

آج اگر ووٹ کو نوٹ سے خرید کر کے صاحب اقتدار بن جاتے ہیں تو کیا اس کا حساب نہیں لیا جائے گا۔جناب سید زادے تو لوگوں کی بخشش کا باعث ہوں گے آپ کیسے سید ہیں کہ اپنے ساتھ لوگوں کے ضمیروں کا سودا بھی کر رہے ہیں محض دنیاوی فائدے کے لئے۔دنیا ہی رکھنی ہے تو پھر اپنے سید زادے ہونے پر فخر نہ کیجئے۔اگر فخر کرنا ہے تو پھر رضائے الہی میں خوش ہوجائیے نا کہ دنیا جاہ وحشمت اور منصب کے لئے۔آپ نے تو یہ سب اپنی سیاسی طاقت کے لئے کیا بقیہ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں نے ایسے ہی اپنی عاقبت خراب کرلی۔یعنی اس ملک میں واقعی ووٹ کی نہیں نوٹ کی عزت ہے۔سچ ہی کسی نے کہا کہ

باپ بڑا کہ بھیا سب سے بڑا روپیہ

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔