ایمان کی نعمت اور مغربی تہذیب وثقافت

  8مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کو منانے کا مقصد عالمی سطح پر خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے آج کی مسلمان عورت ایک دوراہے پر کھڑی ہے ایک طرف مغربی تہذیب وثقافت کا سیلاب ہے جو ہمیں دین ،ایمان اور تاریخ و روایت سے کاٹ کر مغربی سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے تو دوسری طرف قدامت اور روایت کے علمبردار رسم ورواج کو اقدار اور اصول کا درجہ دے کر وقت کے حقیقی تقاضوں سے مکمل صرف نظر کررہے ہیں یہ دونوں ہی راستے زندگی اور ترقی کے راستے نہیں،اگر ہم اپنی بنیادوں کو کمزور ہونے دیتے ہیں یا وقت کی ضرورتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں تو مغربی یلغار کا مقابلہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہوگا۔مغلوبیت اور محکومیت سے بچنے کا راستہ ہمارے لیے وہی ہوگا جو خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا یعنی اصول اور اقدار کے سلسلے میں مکمل استقامت۔ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بی بی خدیجہؓ،بی بی فاطمہؓ،بی بی عائشہ ؓ جیسی عظیم اور پاکباز ہستیوں کا بحیثیت خاتون معاشرے میں ایک مضبوط اور متحرک اور اپنے دائروں میں ایک خودمختار رول نظر آتا ہے ۔ماضی قریب میں نظر دوڑائیں تو بی اماں محترمہ فاطمہ جناح اور موجودہ دور میں بے شمارخواتین کی ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی حدود کی پاسداری کرتے ہو ئے نہ صرف عظیم مقاصد کے لیے کام کیا اور اپنے ملک قوم کے ساتھ خاندان اور معاشرے کو فیض پہنچایا توساتھ ہی معاشرتی و دینی اقدارا ورروایات اور رشتوں کاپاس رکھتے ہوئے اس بات کو ثابت کیا کہ عورت اپنے خاندان کا نگینہ ہی نہیں بلکہ اپنی قوم اور معاشرے کی عزت ووقار کا استعارہ بھی ہے ۔

 عورت پر ریاستی اور معاشی ذمہ داریاں اٹھانے کی کوئی پابندی نہیں، اگر وہ اپنی آزاد مرضی اور خوشی سے کام کرتی ہے اور شوہر سے بھی زیادہ کماتی ہے تب بھی شوہر اس کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کا پابند اور اس کا کفیل ہے، ورنہ ریاست اس کی کفالت کی ذمہ دار ہو گی۔ اس کے ساتھ مہر،وراثت میں حصہ، کاروبار یا ملازمت کے ذریعے عورت کی کمائی اس کی اپنی ملکیت ہے ۔ اسلام کی طرف سے دیئے گئے عورت کے اس حق پرعمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔اسلام میں عورت کا یہ اعزاز ہے کہ اس کو نسل انسانی کی تربیت کا کام سونپا گیا ہے اس کے لئے حضرت عائشہ، فاطمہ، خدیجہ الکبریٰ جیسی ہستیاں قابل تقلید ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ خواتین کی تعلیم و تربیت کی راہ میں رکاوٹیں دور کی جائیں اور انہیں ا ن کی فیلڈ سے متعلق اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ انکے لیے علیحدہ تعلیمی اداروں کا قیام ایک ناگزیر ضرورت ہے۔

معاشرے میں ہونے والی کی ہر ناانصافی کا اثر عورت پر پڑتا ہے وہ ناانصافی مرد پر ہو، بچوں پر ہو، معاشی ناانصافی ہو یا عدالتی اس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ عورت متاثر ہوتی ہے اور عورت ذہنی یا جسمانی طور پر بے سکون ہو تو ہو تو وہ اپنے فرائض ٹھیک سے سرانجام نہیں دے سکتی۔ آج پاکستانی عورت پریشان ہے اور واقعی اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں اسکے ساتھ دہری حق تلفی ہورہی ہے ۔ ایک تو اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئینی وقانونی طور پر اسلام کے عطا کردہ حقوق نہیں دئیے جارہے ۔ تو دوسری جانب عورت کے حقوق کے نام پر مغرب کے ناکام اور فرسودہ نظریات کو اس پر زبردستی تھونپا جارہا ہے ۔ آج کے دور میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ان کو اسلام سے ملنے والے حقوق سے آگاہی دی جائے عورت کے جتنے سماجی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق ہیں اسے فراہم کیے جائیں۔ اسلام میں عورت کو دیئے گئے حقوق مثلاً حق ملکیت، کفالت اور وراثت کا عملاً حصول ممکن بنایا جائے ۔جہیز کی حوصلہ شکنی کی جائے ، نکاح اور خلع میں ان کی مرضی ملحوظ رکھی جائے ۔ عورت اور خاندان کی حیثیت کو متاثر کرنے والے غیر اسلامی رواج کا خاتمہ کیا جائے ۔ عورت کے سماجی، معاشی، معاشرتی، قانونی ، تعلیمی اور طبی حقوق کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے ۔ ملازمت پیشہ خواتین کی عزت و وقار کا تحفظ کیا جائے، بے سہارا عورتوں کے لئے شیلٹر ہومز بنائے جائیں۔ جو ادارے خاندان کی بقاء کے لیے کام کر رہے ہیں اور معاشرے کو تباہی سے بچانا چاہتے ہیں، انکی حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے ۔ مائیں اپنے بیٹوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ ابتدا ہی سے عورت کی عزت و تکریم اوراسکے حقوق سے آشنا ہوں،تاکہ ایک مضبوط اور مستحکم معاشرے کا قیام عمل میں آسکے ۔

حصہ