اردو کے دیس میں اردو پریشان ہے

دنیا کی وسیع عریض کائنات میں ہزاروں قومیں آباد ہیں، ان کی الگ الگ زبانیں،ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں اس وقت پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق چھہتر 76 زبانیں جبکہ دنیا میں چھ ہزار پانچ سو 6500 زبانیں بولی جاتی ہے زبانیں قوم وقبیلہ کی پہچان ہوا کرتی ہے خالق کائنات رب العالمین کا فرمان ہے کہ” اور اس(اللہ بزرگ و برتر) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق ہے اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے بیشک اس میں اہل علم کے لئے نشانیا ںہیں” (سورۃ الروم آیت نمبر ۱۲) اس میں دو رائے نہیں کہ قومیت کی تخلیق میں زبان کا درجہ مذہب کے بعد سب سے اہم ہے ، یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام غیرتمند قوموں نے بہر صورت اپنی زبان کے تحفظ کو نا صرف یقینی بنایا بلکہ اس کی تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات بھی کئے، اردو کی ہزار سالہ تاریخ جس قدر تاریخی ہے اس قدر دلچسپ بھی ہے ، اردو میں مختلف زبانوں کی چاشنی ، لطافت اور شائستگی بدرجہ اتم موجود ہے ، اردو کی ابتداء و ارتقاء کی تاریخ نہایت ہی پر لطف ہے مورخین لکھتے ہیں کہ دنیا کی مختلف خطوں سے ادیبوں کی جماعت شمالی ہندستان میں جمع ہوئے انہی کی برکت سے اردو کا آغاز ہوا پہلے پہل اردو شاہوں اور نوابوں کی زبان تھی جو رفتہ رفتہ مقبول عوامی زبان کے طور پر منظر عام پر آئی ، مرزا غالب، الہ اکبر آبادی،مولوی عبدالحق،ابن انشا، ابن صفی، مولانا ابولکلام آزاد سمیت اہل علم و فن نے بڑے پیمانے میں اس زبان کی ارتقاء و نشرواشاعت میں غیر معمولی خدمات سر اانجام دی، پاک و ہند میں عربی اور فارسی کے بعد اردو کوناصرف زبان بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کے طور پر پہچانا گیا۔

پاک و ہند کے دانشور اہلِ علم خاص کر علمائے اکرام نے اردو زبان میں اسلامی علمی شہ پاروں، تحقیقی مقالوں کو کتابی شکل میں تصنیف کرکے اردو کو اہل علم کا زبان بنا دیا ، آج شاید ہی کوئی ایسا علمی موضوع ہو جس پر اردو میں تصنفات موجود نا ہو، اہلِ علم و فن کی اس عظیم خد مت نے اردو کو ایک زبان کے طور پر ہی نہیں بلکہ تہذیب کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، اس وقت اردو پاکستان سمیت ہندوستان کے چھ ریاستوں میں بولی جانے والی سرکاری زبان ہے ، بانی پاکستان بابائے قوم محمد علی جناح ؒ نے ۲۵ فروری۱۹۴۸؁ء کو اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا ’’میں واضح الفاظ میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہوگی‘‘ بعد ازاں ۷۳ کے آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ میں واضح کیا گیا کہ بہر صورت اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی اور اس زبان کو پندرہ سال کے اندر تمام اداروں میں نافذکیا جائے گا، مگر افسوس اس بات کی ہے کہ سرکاری زبان کے طور پر نافذ ہونا تو درکنار ۷۴ سال ہونے کے باوجود پاکستان میں اردو کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہوا جس کی تاکید قائد اعظم نے فرمائی،یہ بات کسی المیہ سے کم نہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے۷۴ سالوں میں کبھی بھی سنجیدگی سے قائد کے فرمان کو جلابخشنے کے لئے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا۔

اسی وجہ سے ہماری تعلیمی اداروں تک میں اردو بے وقعت ہوکر رہ گئی ہے ہمارا یہ حال ہوگیا ہے کہ ہم نے انگلش کو اپنے اوپر ایسے سوار کرلیا ہے کہ اگر ہمارے سامنے کوئی پڑھا لکھا سلجھا ہوا انسان اردو میں بات کریں جس میں انگلش کے دوچار لفظ ناہوں تو اس کے تعلیمی قابلیت میں شک ہونے لگتا ہے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے ہماری پہلی ترجیح یہ ہوتی ے کہ بچے کو کسی ایسے اسکول میں داخل کیا جائے جہاں بول چال انگلش میں ہو ، ہم یہ بھول گئے ہیں کہ انگلش صرف ایک زبان نہیں بلکہ مکمل مغربی تہذیب ہے ہمارے اس فیصلے سے اور اس قسم کے جذبات سے ہمارے قومی جذبات، مذہبی احساسات او ر ادبی خیالات مجروح ہورہے ہیں ہم اردو کے مقابلے میں صرف ایک زبان کو اپنے اوپر مسلط نہیں کررہے ہیں بلکہ اس زبان کے آداب و معاشرت ،تہذیب وتمدن ، انداز اور لب و لہجہ تک کو اپنے اوپر غیر محسوس طور پر مسلط کررہے ہیں، دوسری جانب ہمارے معاشرے میں اردو کے استاد، ادیب ، اردو کالم نگار ،جوحقیقی معنوں میں اس زبان اور تاریخ وتمدن کے وارث ہے شکستہ حالات سے دوچار ہے ، زندہ قومیں اپنی زبان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ان کی زبانیں زندہ ہوتی ہے اور زندہ زبان کے ادیب کسی صورت دوسری زبان کے سامنے اپنی زبان کو رسوا نہیں ہونے دیتے کہ جوآئے ایک ایک زندہ قوم کی زبان، تاریخ وتمدن اور احساسات و جذبات کو روند تے ہوئے چلاجائے ، اردو زبان کا المیہ یہ ہے کہ سرکاری نیم سرکاری سطح پر اس کے تحفظ کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں،۲۰۰۳؁ء میں کوکب اقبال ایڈوکیٹ صاحب نے سپریم کورٹ میں اردو زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت بحال کرنے کے لئے پٹیشن دائر کی جس کا فیصلہ ۱۲ سال بعد ۸ ستمبر ۲۰۱۵؁ء کو آیا ، معزز عدالت عالیہ نے اپنے فیصلہ دیتے ہوئے اردو کو سرکاری زبان قرار دیا اور مزید حکم دیا کہ تین ماہ کے اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا اردو میں ترجمہ کیا جائے ، سرکاری محکمے اور عدالتوں کی تمام تر کارروائی کو اردو میں کیا جائے مزید یہ کہ سی ایس ایس سمیت تمام امتحانات اردو میں ہوں گے، معززعدالت عالیہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بھی پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کا نفاذ ممکن نہیں ہوسکا، ناجانے وہ کونسی قووتیں ہیں جو اردو کے نفاذ میں رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے اردو اپنے ہی دیس میں پریشان ہے دینی مدارس اپنی اصلی حالت میں ناہوتے اور اردو کی نشرواشاعت میں ان کا غیرمعمولی کردار ناہوتا تو شاید اردو اپنے ہی دیس میں ناپید ہوکر رہ جاتی ، ایک زندہ قوم ہونے کی حیثیت سے ہمیں اردو کی ترویج اورحکومتی سطح پر بحالی کے لئے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔