فرانسیسی سفیراب تو جائے گا

یہ بات بہر حال تحریک لبیک نے پاکستان کی حد تک تو کم ازکم سمجھا دی ہے کہ ناموس رسالت ﷺ کا معاملہ اسلام کے یا دنیاکے دیگر تمام تر معاملات سے بالکل جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔اس پر کسی قسم کا کمپرومائز یا چونکہ چنانچہ کی گنجائش نہیں۔ شیخ الحدیث علامہ خادم حسین رضوی ؒ کی رحلت کے بعد جہاں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید یہ ساری بات، ناموس رسالت پر پہرے کا سارا  شور اب کہیں دب جائے گااور سب معاملات ٹھنڈے ہو جائیں گے مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا وہ تمام خدشات یکسر ختم ہی ہو گئے۔تحریک لبیک نے فرانس میں ہونے والے گستاخی کے واقعات پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ملک بھر میں احتجاج کیا اور اس کو فیض آباد پر دھرنے کی صورت اختتام کیا۔اس دھرنے کو جن شرائط پر حکومت نے ختم کرایا تھا اُن میں فرانسیسی سفیر کی واپسی اولین شرط تھا اس کے بعد مصنوعات کے بائیکاٹ اور پھر جھوٹے مقدمات و گرفتار کارکنان کی رہائی تھا۔ایسا نہیں تھا کہ تحریک لبیک گرفتاریوں سے خوف زدہ تھی، حال یہ تھا کہ خود علامہ رضوی ؒ کو کئی بار پولیس نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور گرفتار بھی کیا تھا۔ اُن کے بھائی، بھتیجے، بیٹے سمیت کئی ذمہ داران و کارکنان کی بڑی تعداد پر سنگین مقدمات قائم کیے گئے  کئی تو شہید ہوئے۔لیکن یہ سب اُن کے قدم، ان کے عزائم کوکسی ایک زرہ برابر بھی کوئی پیچھے نہ دھکیل سکا اسکی وجہ یہ تھی کہ حضور ﷺ سے بے وفائی کے ڈر، ناموس پر پہرہ پر مشتمل جو بیانیہ امیر عزیمت نے دیا تھا اس میں ایسی کوئی گنجائش  ہی نہ تھی۔ہاں،اس وقت ایک جھوٹی خبر ضرور پھیلائی گئی کہ کوئی معافی نامہ لکھ کر دیا ہے تو جیل سے رہائی ہوئی لیکن اس کی کوئی سندکہیں موجود نہیں تھی۔پھر آگے آنے والے دنوں نے خود بتا دیا کہ کیا اور کتنی معافی مانگی گئی تھی۔

فرانس میں ہونے والے واقعات نے جہاں امت کے دل کو تکلیف پہنچائی وہاں ایسے موقعوں کے لیے امت کے موقف کی ترجمانی بھی ہمیشہ کی طرح تحریک لبیک ہی نے کی اور ایک  موثر احتجاج کے ساتھ حکومت سے وعدہ لیا کہ وہ ناموس رسالت ﷺ کی خاطر عوام کو سڑکوں پر نکلنے سے روکنا چاہیں تو کم  از کم فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالا جائے۔اس سے قبل کے دھرنے میں تحریک لبیک نے وفاقی وزیر کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا جب انتخابی  بل میں ختم نبوت کے حلف نامے میں سے ختم نبوت والی شق میں تبدیلی و غیر ضروری ترمیم نکالا گیاتھا۔یہی نہیں بلکہ آسیہ ملعونہ کی رہائی کے خلاف بھی بھرپور احتجاج کیاگیا لیکن حکومت نے ملعونہ کو ملک سے نکال دیا۔

۷۱ نومبر کو فیض آباد دھرنے کو حکومتی وعدے پر یقین کر کے ختم کیا گیا۔ لوگوں نے مذاق اڑایا کہ عزت بچائی گئی ہے کیونکہ جن افراد سے مذاکرات ہوئے وہ باقیوں کے نزدیک سب غیر اہم لوگ تھے۔زیادہ بات ہو ہی نہ پائی امیر عزیمت اسی ہفتہ رضائے الہی پا گئے اور کروڑوں سوگواران کوآنسوؤں کے ساتھ، عقیدت، محبت و تعلق کے ساتھ چھوڑ گئے۔اُن کے جنازے اور جنازے کے بعد ہونے والی تعزیتیں گواہ ہیں کہ ناموس رسالت ﷺ کے عنوان سے انہوں نے امت کو ایک کر دکھایا۔

اتنے بڑے سانحہ و نقصان کے بعد ایسا لگا کہ جیسا اوپر بیان کیا۔مگر بات یہی ہے کہ جس ناموس کی حفاظت کی ذمہ داری تو اللہ نے لی ہو، جس کا ذکر اللہ نے بلند کیا ہو تو وہ خود ہی لکڑی کو تلوار بنا دیتا ہے۔نو منتخب امیر تحریک لبیک سعد رضوی نے اسی طرح سے اپنے والد کے اور کے مشن کو تھاما۔اس کے بعد کوئی پچھلے ڈیڑھ ماہ سے ہر ہفتہ سماجی میڈیا پر کئی متحرک ٹرینڈز کی صورت تحریک لبیک کی جانب سے ’فرانسیسی سفیر‘ کو پاکستان سے نکالنے کے وعدے کی یاد دہانی زور پکڑتی رہی۔ اس ہفتہ شہر کے اہم مقامات پر ’سفیر کو دفعہ کرو‘کے عنوان سے نمایاں بینرز بھی آویزاں کر دیئے گئے۔

تحریک لبیک کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ و دیگر اداروں کی تیاری کا لیبل لگانے والوں کو بقول مفتی منیب الرحمٰن کہ اگر تمہاری ٹکسال تو بند نہیں ہوئی ہے نا تو ایسا کوئی دوسرا پیدا کر کے دکھا دیں جس کے لیے کروڑوں کے دل کھلے ہوں۔ان کے جنازے کے ایک دن قبل تک بھی کسی جہاز،ٹرین میں لاہور کے لیے کوئی سیٹ دستیاب نہ تھی۔ایسا مائی کا لعل دوبارہ پیدا کر کے دکھادیں جو کروڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہو۔یہ شاہکار ڈھلتے ہیں لیکن مدینہ کی بھٹی میں ڈھلتے ہیں، کسی اور کو دعویٰ ہو تو ایسا نمونہ دِکھادے۔

یہ صورتحال دن بدن حکومت کے لیے سخت تناؤ پیدا کر ر ہی تھی، ایسا جو پی ڈی ایم بھی نہ پیدا کر سکی۔آج بھی فیس بک پر علامہ صاحب کی تصویر، برہان وانی کی طرح کا سخت جرم ہے جو آپ کی آئی ڈی کو معطل کرا دیتا ہے۔اندازہ کرلیں کہ حکومتی خوف کا کیا عالم ہوگا۔ناموس رسالت ﷺ پر پہرے کی جو آتش علامہ صاحب نے امت کے دل میں بھڑکائی اس کو بجھانا کسی قسم کی طاقت سے ممکن نہیں تھا۔سوشل میڈیا پر اور تحریک کے نو منتخب امیر کے بیانیے بہت واضح تھے۔ ملک میں اسی مہینے ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک لبیک کی تیاریاں بھی بڑا پیغام دے رہی تھیں۔

یہ ساری صورتحال دیکھ کر حکومت نے بالآخر تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ پر نظر ثانی کی اپیل کی اور اس وعدے پرپر عمل درآمد کے لیے مزید وقت مانگ لیا کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائیگا۔ اس پر مزید مشاورت ہوئی اور بات اس پر ختم ہوئی کہ 20اپریل2021 تک معاہدے پر عمل کرنے کا اعلان وزیر اعظم پاکستان خود کریں گے۔ تحریک لبیک کی شوریٰ نے وزیر اعظم کے اپنے الفاظ سننے پر اُن کے وعدے و عزم کو سچ مانتے ہوئے حکومت کو مزید 20اپریل تک کا وقت دیا کہ اس تاریخ سے قبل فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالاجائے گااور اسکا فیصلہ پارلیمنٹ سے بشکل قانون سازی کرایا جائے گا۔یہ وہ استقامت اور عزیمت کا سخت ترین رستہ ہے جس پر تحریک لبیک نے شہادتوں، سخت ترین تشدد اور فورتھ شیڈول (دہشت گردی ایکٹ)سمیت کئی حکومتی آزمائشوں کے باوجود صرف ناموس رسالت ﷺ کی خاطر طے کیا۔ بھرپور پابندی کے باوجود ابلاغ کا ہر دستیاب دائرہ استعمال کیا، کیا یو ٹیوب، کیا ٹوئٹر فیس بک تو آج بھی علامہ صاحب ؒ کی تصویر یا ویڈیو لگانے پر اکاؤنٹ بلاک کر دیتا ہے۔حکومتی اعلان سے قبل تک انتہائی مدلل، جامع انداز سے سماجی میڈیا پر فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کی مہم چلائی گئی۔ اس کے بعد ’شوریٰ کے فیصلے پر اعتماد کرتے ہیں‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹرینڈ بنا کر عوام کو بتایا گیا کہ ناموس رسالت ﷺ پر پہرہ کا پرچم تحریک لبیک نے ہی بلند کر کے رکھا ہے۔غالب امید یہی ہے کہ اگر حکومت بلکہ وزیر اعظم نے اپنے کہے کے مطابق عمل کیا تو اسمبلی سے کوئی نہ کوئی فیصلہ منظور کروا کر فرانسیسی سفیر کو ضرور ملک سے بھیج دیا جائیگا۔فیس سیونگ کی اصطلاح و مفہوم میں دیکھا جائے تو معاہدہ ہوجانا کافی تھا،لیکن بات یہی ہے کہ ناموس رسالت ﷺ کا معاملہ ایسے ٹوکن فیس سیونگ اقدامات سے نہیں کیا جا سکتا۔