انسانوں کے رنگ ڈھنگ اپناتے پرندے

کچھ دن گھر بند تھا تو باورچی خانے کی کھڑکی کے باہر کچھ گملے رکھے تھے ان میں کبوتر نے گھونسلہ بنا لیا اور دو انڈے دے دیئے۔ گھر واپسی پر جب کھڑکی کھولی تو کبوتری گھبرا کر اڑ گئی۔ خیر کچھ دیر بعد واپس لوٹ آئی اور دوبارہ انڈے سینے لگے۔ کچھ دن تو یہ معمول رہا دن میں کچھ دیر کو اڑ جاتی کچھ کھانے جاتی پھر آ کر انڈوں پر بیٹھ جاتی۔ ایک صبح دیکھا تو کبوتری نہیں تھی۔ پھر سارا دن گزر گیا کبوتری نہیں آئی، رات کو بھی نہیں آئی اور پھر انڈے یونہی پڑے رہ گئے اور کبوتری پھر نہ لوٹی بہت دکھ ہوا کہ معلوم نہیں کیوں کبوتری نے اپنے انڈے سینے کا کام ادھورا ہی چھوڑ دیا۔ کچھ مزید دن گزر گئے۔ ایک دن ناشتہ بنا رہی تو دو چھوٹی بھوری چڑیاں اس کبوتر کے گھونسلے میں کچھ کرتی نظر آئیں۔ میں ابھی بھی کبوتر کی منتظر تھی سو ان کو اڑا دیا۔ دیکھ تو انڈے غائب تھے جلدی سے کھڑکی کھول کر دیکھا تو جو گھونسلے کے نیچے گملے میں انڈے پھینک دیئے تھے اور اس گھونسلے کو بکھیر دیا تھا۔ حیرت ہوئی کہ بھلا ایسا کیوں؟ خیر گھونسلے کو درست کیا اور انڈے واپس رکھے۔ دوسرے دن پھر وہی حال تھا۔ البتہ گھونسلے کے تنکے کافی کم تھے۔ تیسرے دن انڈے تو گملے میں پڑے تھے اور تنکا کوئی بھی باقی نہیں تھا۔ پھر سمجھ آئی کہ وہ چڑیاں اپنے گھونسلے کے لئے وہ لے گئی ہیں۔

اس مشاہدے نے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ انسانوں کے ساتھ رہتے ہوئے یہ پرندے بھی انسانی خصلتوں کو اپنانے لگے ہیں۔ جہاں دوسرے کو کمزور دیکھا، کہیں کسی نے پاؤں دھرنے کی جگہ دے دی، گویا جینا صرف ہمارا ہی حق ہے۔ دوسروں کے گرنے کے منتظر ہم انسان۔۔۔۔۔

ایک خبر نظر سے گزری “مختلف جگہوں پر لوگ مقبوس(چاول اور گوشت/مرغی کی پلاؤ نما ڈش جو عربوں کو بے حد مرغوب ہے) پھینک دیتے ہیں اور مہمان آبی پرندے وہ کھاتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے مچھلی کا شکار کرنے کی کوشش چھوڑ دی ہے بلکہ اس خوراک سے کاربوہائڈریٹ کی زیادہ مقدار سے وہ فربہ ہو چکے ہیں اور اڑنے کے قابل بھی نہیں رہے۔”

حضرت انسان نے بسیار خوری سے اپنا تو بیڑا غرق کیا ہی تھا اب پرندے بھی ان کی دیکھا دیکھی یہ سب کھا کھا کر موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ آبی پرندے موسمی مہمان ہوتے ہیں جو سردیوں گزارنے گرم ساحلوں پر آتے ہیں، پھر جب یہاں موسم گرم ہوتا ہے تو یہ واپس اپنے علاقوں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ان کا واپسی کا سفر ویسا ہی یقینی ہے جیسا ہمارا واپسی کا سفر ہے۔ اب جبکہ وہ انسانوں کی عادتیں اپناتے ہوئے موٹاپے کا شکار ہو گئے تو واپسی کیسے ممکن ہو گی؟؟

سوچیں تو، اللہ کو قوی اور پھرتیلے مومن پسند ہیں۔ کھانے کے آداب میں پیٹ کے تین حصے یعنی پانی ،خوراک اور ہوا کرنا ہے۔ مگر ہم انسان تو اس وقت تک کھاتے ہیں جب تک حلق تک بھر نہ جائیں، بلکہ آخر میں تو قسم کھانے کی گنجائش بھی نہیں بچتی۔ ایسے میں واپسی کی فکر کیونکر ہو گی؟