ویلنٹائن ڈے!۔

گزشتہ چند برسوں سے ہمارے معاشرے میں عجیب دستور چل نکلا ہے کہ ہم پس منظر سے آگاہی حاصل کیے بغیر اغیار کی فرسودہ تہذیب کے دلدادہ بنتے چلے جارہے ہیں۔ ان ہی فرسودہ رسم و رواج میں سے ایک 14 فروری کے دن منایا جانے والا ویلنٹائن ڈے ہے جسے عرف عام میں یوم محبت کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ اس دن نوجوان شادی شدہ و غیر شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے کو پھول اور دیگر تحائف دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، اس کے علاوہ لوگ بہن، بھائیوں، ماں، باپ، رشتے داروں اور دوستوں کو پھول دے کر بھی اس دن کی مبارکباد دیتے ہیں۔ بلاشبہ محبت ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے، اسی طرح معاشرے میں ہر فرد اس کا متلاشی بھی نظر آتا ہے، اگرچہ ہر متلاشی کی سوچ اور محبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں۔ اور جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہوتی ہے کہ اسلام محبت اور اخوت کا دین ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت، پیار اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے کے نام پر کسی دن کو مخصوص کرکے، اور اس کے بدتہذیب طریقہ کار سے معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دیا گیا ہے۔ یہاں قابل غور بات ہے کہ کیا کبھی کسی عیسائی نے عید الفطر ادا کی،یا کسی ہندو نے عید الاضحی پر قربانی دی،کیا کسی ایک یہودی نے ماہ رمضان میں روزہ رکھے ؟ یقینا آپ نے ایسا کبھی نہ دیکھا اور نہ سنا اور یہ حقیقت ہے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا، تو پھر ہم اغیار کی یہ فرسودہ اور بے ہودہ رسم بحیثیت مسلمان کیوں مناتے ہیں۔ ہر مذہب اپنے اندر کچھ تہوار رکھتا ہے جبکہ دین اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو دو تہوار دیئے ہیں ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ دورجاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے توصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں، عیدالفطر اور عیدالاضحی‘‘ (صحیح سنن نسائی)۔

 غیر مسلموں کے رسم و رواج اور تہواروں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر دورس نگاہ رکھنے والے تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایاجا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک صحابی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے ’’بوانہ‘‘ نامی مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی ہے،کیا میں اسے پورا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا’’ کیا دورِ جاہلیت میں وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں ہوا کرتی تھی؟‘‘ اس نے کہا نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’ کیا وہاں مشرکین کے تہواروں ،میلوں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوا کرتا تھا؟‘‘ اس نے کہا، نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’پھر اپنی نذر پوری کرو کیونکہ جس نذر میں اللہ کی نافرمانی کا عنصر پایا جائے اسے پورا کرنا جائز نہیں‘‘ (ابوداؤد)۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے کی ثقافت حالات کے مطابق نموپزیر ہوتی ہے جبکہ مذہب کے احکامات اٹل ہوتے،ان میں اگر تغیروتبدل کر دیا جائے تو ان کی اصل شکل برقرار نہیں رہتی۔اگرچہ مذاہب میں بھی کچھ نرمی ہوتی ہے، مگر اتنی نہیں کہ اس کے بنیادی احکامات کو ہی توڑ مروڑ دیا جائے۔ بلاشبہ مذہب اور ثقافت اپنے اصل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں،اور ان میں کشمکش چلتی رہتی جیسا کہ ویلنٹائن ہی کی مثال لے لیں تو خود عیسائی مذہب اس کے خلاف ہے۔لہٰذا ثابت ہوا کہ ہر لچر پن کو ثقافت کا لبادہ اوڑھا کر حلال نہیں کیا جا سکتا۔ فحاشی ہر مذہب میں ایک قبیح فعل ہے، دین اسلام تو ہے ہی پاکیزہ اور صالح لوگوں کا دین۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’یقینا ً جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش (و بے حیائی) پھیلے وہ دنیا اورآخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔‘‘ جبکہ ویلنٹائن ڈے تو ہے ہی کھلی بے حیائی اور فحاشی، لہٰذا اسے کسی صورت بھی ایک صالح معاشرہ اختیار نہیں کر سکتا۔

 دین اسلام مین غیر مسلموں کی مشابہت اور ان کے طورطریقوں سے بچنے کا درس دیا گیا ہے۔حدیث مبارکہ ہے کہ ’’جس نے غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے‘‘ (ابوداؤد)۔ ویلنٹائن ڈے فحاشی کا دوسرا نام ہے، اسلام نہ صرف برائی کا سد باب کرتا ہے بلکہ برائی کی طرف جانے والے ہر راستے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔مغربی معاشرے کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں بن بیاہی مائیں اور بغیر باپ کے بچے فروغ پا رہے ہیں۔ یہ حکومتی اداروں، معاشرتی طبقات ، اور تعلیمی اداروں کے سربراہان کا فرض ہے کہ سکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھنے والی نئی نسل کی اخلاقی تربیت کریں۔ انہیں حیا باختہ تہواروں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بتایا جائے کہ اغیار کی ننگی تہذیب ہمارے مذہب اور ہماری معاشرتی اقدار کا صاف ستھرا چہرہ مسخ کرنا چاہتی ہے۔حکومت، میڈیا، سماجی اور تعلیمی اداروں کے منتظمین و اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں۔ انہیں ان بے ہودہ تہواروں سے لا تعلق رہنے کی تلقین کریں اور ان دنوں ان کی خصوصی نگرانی بھی کریں ،کہ کہیں وہ شیطان کے جال میں پھنس کر کوئی غلط قدم نہ اٹھا بیٹھیں۔ ہمیں چاہیے کہ فرسودہ و بیہودہ رسم و رواج کو ترک کرکے اپنی زندگی اسلام کے روشن احکامات کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں، جوکہ باحیاء اور سکون و راحت سے بھرپور ہے۔