۔”ویلنٹائن ڈے” یوم محبت یا یوم فحاشی؟

موسم بہار کی آمد آمد ہے اورفروری کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہر سو درختوں پر برگ و گل کھل رہے اور پودوں پر مختلف رنگ و بو کے غنچے چٹک رہے ہیں۔ درخت پتوں اور پھولوں کی پیراہن پہن کر ہرے بھرے دکھائی دے رہے ہیں۔ دلکش رنگوں اور صورتوں میں خوشنما پھول اور معصوم کلیاں بہار کی رونق بڑھا رہے ہیں۔ رنگا رنگ گلاب خصوصاً سرخ رنگ میں اور دیگر انواع و اقسام کے پھول و کلیاں وغیرہ درخت اور پھولوں کی رونق بن کر نظروں کو تازگی اور سرور عطا کر رہے ہیں۔ بازاروں اور مارکیٹ میں پھولوں کے خوبصورت سرخ گلدستے سجنے شروع ہو چکے ہیں۔

موسم بہار کی آمد پر پاکستان میں بسنت میلہ، جشن ِبہاراں، پتنگ بازی، اور عالمی یوم محبت “ویلنٹائن ڈے” وغیرہ کے نام سے مختلف تہوار منائے جاتے ہیں۔ اور 14 فروری کے حوالے سے ویلنٹائن ڈے کا نام ذہن میں آتا ہے۔ جس کے بارے میں عام طور پر لوگوں کے ذہن میں بس محبت اور عشق و عاشقی اور دیوانگی وغیرہ کے خیالات آتے ہیں۔

پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں بالخصوص حکومتی سرپرستی میں اسے ہماری اسلامی اقدار کو تاخت و تاراج کرنے کے لیے یہاں رواج دیا گیا۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ اس منحوس فیشن کے آڑ میں نام نہاد مسلمان نوجوان اس قدر بے باک ہوئے کہ سر بازار ہماری معصوم بہنوں اور بیٹیوں کو گلدستے اور پھول پیش کرنے لگے!

انا للہ وانا الیہ راجعون۔

پاکستانی ہائی کورٹ کی ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے2017ء میں پاکستانی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت صدیقی نے عوامی سطح پر ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کو مسلم ثقافت کے منافی قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کر دی تھی۔ کیونکہ پاکستانی معاشرے میں ویلنٹائن ڈے کو گزشتہ چند برسوں کے دوران کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے جو مغربی ثقافتی یلغار کی ایک بدترین مثال ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں بے حیائی و فحاشی خطرناک حد تک بڑھنا شروع ہوچکی ہے۔ اس لیےعدالت نے ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کی کوریج پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن کہیں چوری چھپے اور کہیں کھل کھلا کر یہ تہوار منانے کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔

ویلنٹائن ڈے کی تعریف عام طور پر یہ بیان کی جاتی ہے:

1 “ویلنٹائن ڈے (جو 14 فروری کو منایا جاتا ہے) محبوبوں کے لئے خاص دن ہے۔” (انسائیکلو پیڈیا بک آف نالج)

2 “اسے عاشقوں کے تہوار (Lover’s Festival) کے طور پر منایا جاتا ہے۔” (انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا)

ویلنٹائن ویک

گزشتہ چند برسوں تک ویلنٹائن ڈے صرف ایک دن منایا جاتا تھا لیکن اب اس میں جدت پیدا کرکے اس کو ویلنٹائن ویک میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب 7 فروری سے ویلنٹائن ویک شروع ہوتاہے جس کا اختتام 14 فروری کو ہوتا ہے۔

7 فروری کو “روز ڈے” (Rose day)

8 فروری کو “پروپوز ڈے” (Propose day)

9 فروری کو “چاکلیٹ ڈے” Chocolate day)

10فروری کو “ٹیڈی ڈے”(Teddy day)

12 فروری کو “پرامس ڈے” (Promise day)

12 فروری کو “ہگ ڈے” (Hug day)

13 فروری کو “کس ڈے” (Kiss day)اور

14فروری کو”ویلنٹائن ڈے “(Valentine day) کہتے ہیں۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔ “خطوات الشیطان” کی کس قدر پیروی ہے!!!

اور کس ڈھٹائی سے بے حیائی کی ترویج اور زنا کے راستے کھولے جا رہے ہیں!!! استغفراللہ ونتوب الیہ!!!

ویلنٹائن نام ہی کتنا عجیب و غریب ہے اور یہ نام کسی مغربی فرد یا تہذیب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ نام نہ تو قرآن مجید میں آیا ہے نہ حدیث میں۔ نہ یہ کوئی اسلامی نام ہے اور نہ ہی مسلمان یہ نام رکھنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن اس دن کو منانے میں امت مسلمہ کے وہ مسلمان بھی پیش پیش ہوتے ہیں جنوں نے کل کو امت مسلمہ اور قوم کا روشن مستقبل بننا ہوتا ہے۔ اغیارکس قدر بدترین درجے کی بے غیرتی و بے حیائی ہماری نوجوان نسل میں پیدا کرنے کی سعی مسلسل میں مصروف عمل ہیں۔

دیگر اقوام عالم کی طرح پاکستان میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں “ویلنٹائن ڈے” کا تہوار بہت تیزی سے پھیل چکا ہے۔ اس جشن کو ایک ویلنٹائن نامی عیسائی راہب (پادری/ پوپ) سے جوڑا جاتا ہے جسے 14 فروری 270ء کو پھانسی کا حکم دے دیا گیا تھا۔ عیسائی اس کی یاد میں یہ دن بطور جشن مناتے ہیں۔

ویلنٹائن ڈے کی مصروفیات

اس دن لوگ سرخ لباس پہن کر ایک دوسرے کو تحائف اور سرخ پھول پیش کرتے اور مبارک باد دیتے ہیں۔ مبارک باد کی جدید شکل تہنیتی کارڈز وغیرہ کا رواج بہت زیادہ فروغ پا چکا ہے۔ کیک اور مٹھائیاں بنانے والے سرخ رنگ کی مٹھائیاں بنا کر خصوصاََ سرخ رنگ کے دل بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ اکثر لوگ اس دن سے متعلق اپنے اپنے پیشے کے لحاظ سےخاص مصنوعات اور معلومات پیش کرتے ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا،سوشل میڈیا ،ٹی وی چینلز، اخبارات، رسائل و جرائد، میگزین وغیرہ سب (الا ماشااللہ) اس دن خاص نشریات پیش کرتے ہیں، جن میں اس دن کے متعلق مختلف حالات و واقعات اور اس دن کو بھرپور طریقے سے منانے کے طریقے، لوگوں کی رائے اور مشورے اور ان کے ایک دوسرے کو بھیجے جانے والے محبت بھرے پیغامات وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ سارا دن وہ اس کی ترویج میں مصروف ہوتے ہیں اور معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

کورئیر سروسز کے ذریعے ایک دوسرے کو سرخ پھول، سرخ کلیاں،۔سرخ گلدستے، سرخ تہنیتی کارڈز، سرخ تحائف اور محبت بھرے پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ ہوٹلوں میں “ویلنٹائن ڈنر” دیے جاتے ہیں۔ موبائل فون پر پیغامات بھیجے جاتے ہیں اور فون کیے جاتے ہیں۔ دکانوں پر عید کارڈز کی طرح ویلنٹائن کارڈز کی بھی بہت زیادہ خرید و فروخت ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ کی مصروف دنیا میں الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر ای کارڈز بھیجنے کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ سارا دن لڑکے لڑکیاں پھول، کلیاں، گلدستے اور تحائف خرید کر اپنے نام نہاد محبوبوں کو پیش کرتے یا بھجواتے ہیں۔

یہ بات بہن بھائیوں، سہیلیوں اور دوستوں کی آپس کی محبت تک ہرگز ہرگز محدود نہیں ہوتی۔ بلکہ اس موقع پر نکاح کے بندھن سے ہٹ کر ایک آزاد اور رومانوی قسم کی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے جس میں لڑکے لڑکیوں کے آزادانہ ملاپ، تحفوں اور تمام چیزوں کے لین دین اور غیراخلاقی حرکات کے نتائج زنا، بداخلاقی،زیادتی (زنا بالجبر)، گینگ ریپ، ہم جنس پرستی اور فعل قومِ لوط وغیرہ کی صورت میں نکلتا ہے۔ جو مغربی ایجنڈے کی اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ ہمیں مرد اور عورت کے آزادانہ تعلق پر کوئی اعتراض نہیں ہے!

اورجنس و ہوس کے مارے لبرل سیکولر مرد اور عورتیں دونوں اس میں شامل ہیں کیوں کہ اس طرح کے ایجنڈے مردوں کے بھرپور تعاون کے بغیر، صرف عورتوں کی محنتوں سے ممکن نہیں ہو سکتے۔

بقول اکبر الٰہ آبادی:

؎ بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں اکبر

 زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا

 پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟

 کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

ویلنٹائن ڈے پر پاکستانی معاشرے کاچلن

یہی سب کچھ پاکستانی معاشرہ، پاکستانی تہذیب اور پاکستانی میڈیا پر بھی دکھائی دیتا ہے۔ بہت سے ممالک میں تو اس دن کو منانے پر پابندی ہے لیکن پاکستانی معاشرہ میں لوگ یہ دن دیگر ممالک سے بڑھ چڑھ کرمناتے دکھائی دیتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے معاشرتی، معاشی، اخلاقی اورتہذیبی کینسر کی خطرناک حیثیت اختیار کر چکا ہے جو جنسی بے راہ روی کی خوب حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

علامہ اقبال نے اس صورت حال کی کیا خوب ترجمانی کی ہے!

؎ وضع میں ہو تم نصاریٰ، تو تمدن میں ہنود

 یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

حتیٰ کہ بعض اسلامی ممالک میں صرف طالبات کے درمیان بھی ویلنٹائن ڈے منانے کا رواج فروغ پا چکا ہے۔ اس دن وہ سرخ لباس پہنتی اور سرخ حلیے میں دکھائی دیتی ہیں۔ کپڑے، جوتے، جیولری، پرس وغیرہ سب کچھ سرخ ہوتا ہے۔ طالبات اس دن آپس میں سرخ پھولوں اور تحائف کا تبادلہ کرتی ہیں۔ اور ان یہ سب کام جائز سمجھتی ہیں کہ طالبات کا آپس میں محبت کا اظہار کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے۔حالانکہ محبت کی اظہار کے لئے ایک دن مخصوص کر لینا یا کوئی طریقہ اختیار کر لینا اسلامی شریعت میں کوئی معقول بات نہیں۔ صرف اس دن یا خصوصاََ اس دن محبت کا اظہار اس طریقے سے کرنا تو کفار کی نقالی اور مشابہت ہے۔

بقول علامہ اقبال

؎ حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

 خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

ویلنٹائن ڈے کی حرمت کی وجوہات

اسلامی شریعت کی تعلیمات کے عین مطابق عصر حاضر کے علماء نے مختلف وجوہات کی وجہ سے ویلنٹائن ڈے منانا ممنوع قرار دیا ہے۔

ویلنٹائن ڈے ایک کفریہ عید

ویلنٹائن ڈے ایک کفریہ عید ہے اور اس کو منانا جائز نہیں۔بعض علماءکے نزدیک تویہ بدعت ہے اوراسلام میں اس کفریہ اور اور اور اور بدعتی تہوار کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ جس نے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی تو اس کا مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ: ترجمہ: “ما احدث فی امرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد۔”(صحیح بخاری: 2697؛ صحیح مسلم: 1718)

ترجمہ : “جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس دین کا حصہ نہیں , تو پھر وہ رد ہے۔”

اسلامی تہواروں کی حیثیت کی نفی

مسلمان کے لیے کفار اور مشرکین کے کسی بھی دن کو بطور تہوار منانا جائز نہیں ہے کیونکہ تہوار منانا شریعت کا حصہ ہے، اور ہر مسلمان کے لیے شرعی احکامات پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔

اس تہوار کو منانے کی کم از کم حیثیت ایک گناہ ہے، اور انہی خصوصی تہواروں کی طرف آقائے دو جہاں ﷺ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:”یَا أبابَکر ان لکل قوم عیدا و ھذا عیدنا۔” (صحیح بخاری: 952)

ترجمہ: “اے ابوبکر! ہر قوم کے لیے اپنا ایک تہوار ہوتا ہے اور ہمارا تہوار ہماری عید ہے۔”

یہ حدیث مکمل طور پر یوں بیان ہوئی ہے۔

امام بخاری اور امام مسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، آپ کہتی ہیں کہ “حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور میرے پاس اس وقت انصار کی دو بچیاں تھیں جو جنگ بُعاث کے دن انصار کی طرف سے کہے جانے والے اشعار گنگنا رہی تھیں، آپ کہتی ہیں کہ : وہ دونوں کوئی گلوکارہ بھی نہیں تھیں۔” انہیں سن کر ابو بکر نے کہا کہ : “کیا شیطانی بانسریاں رسول اللہﷺ کے گھر میں!” یہ کام عید کے دن ہو رہا تھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ترجمہ: “اے ابوبکر! ہر قوم کے لیے اپنا ایک تہوار ہوتا ہے اور ہمارا تہوار ہماری عید ہے۔” (صحیح بخاری:952؛ صحیح مسلم: 892)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:”سالانہ دن منانا بھی ایسا منہج ، مسلک اور شریعت میں شامل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ:لكل جعلنا منكم شرعة و منهاجا” (المائدۃ:48)

ترجمہ: “ہم نے ہر ایک کے لئے شریعت اور منہج بنا دیا ہے۔”

اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے کہ: لكل أمة جعلنا منسكا هم ناسكوه (الحج: 67)

ترجمہ: “ہم نے ہر ایک امت کے لئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے جس پر وہ چلتے ہیں۔”

بلکہ امام ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں کہ “جشن اور تہوار تو کسی بھی شریعت کا خاص الخاص امتیاز ہوتے ہیں۔ اس میں اہل کفرے سے مشابہت ان کی خاص چیز میں مشابہت ہے جو بسا اوقات انسان کو کفر کی حد تک پہنچا دیتی ہے۔” (اقتضاء الصراط المستقیم، 1/ 528,529)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:”اگر عیسائیوں اور یہودیوں کا کوئی خاص تہوار ہو، تو جس طرح کوئی مسلمان انکے مذہب اور قبلہ میں انکے ساتھ موافقت نہیں کرتا، بعینہٖ کوئی مسلمان ان کے تہوار میں بھی شرکت نہ کرے۔””تشبه الخسيس بأهل الخميس”، مجلہ “الحکمۃ”(4/193)

3 کفار سے مشابہت

کفار سے مشابہت کی بنا پر اس تہوار کو منانا جائز نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺکا ارشاد مبارکہ ہے کہ

من تشبه بقوم فھو منھم‘‘ (سنن ابی داؤد:3512)ترجمہ: “جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو پھر اس کا تعلق انہی میں سے ہوگا”

قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ

“افحکم الجاھلية يبغون۔” (المائدہ: 50)ترجمہ: “کیا پھر وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟”

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو دن تھے جن میں وہ کھیلا کرتے تھے، تو آپﷺ نے پوچھا: “یہ دو دن کیا ہیں؟” تو صحابہ کرام نے جواب دیا: “ہم جاہلیت میں ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے”، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: “یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے بہتر دو دن عطا کئے ہیں؛ عید الاضحی اور عید الفطر۔” ( سنن ابی داود: 1134)اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔ جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو (صحابہ کرام سے) فرمایا:”وقد أبدلکم الله بهما خيرا منهما: يوم الفطر و يوم الأضحی۔”

”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عید یا تہوار کسی قوم کے ایسی امتیازی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر وہ دیگر اقوام سے مختلف ہوتی ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت اور کفار و مشرکوں کے تہواروں کے دن جشن منانابھی جائز نہیں ہے۔

4۔ بے حیائی کی ترویج

شرم و حیا، عفت و عصمت اور پاکدامنی مسلم معاشرے کی پہچان اور اہل اسلام کا طرۂ امتیاز ہیں جبکہ ویلنٹائن ڈے یوم بےحیائی اور ناجائز و نام نہادمحبت کے غیراخلاقی اظہار کا نام ہے۔ یہ تہوار اسلام کے مضبوط خاندانی نظام کی تباہی و بربادی اور نوجوان نسل کی جنسی بے راہ روی کا سبب ہے۔

یہ تہوار بے حیائی ،فحاشی، عریانی، لھو و لعب، میوزک، ناچ گانا، اسراف اور دیگر غیر اخلاقی کاموں اور گناہوں پر مشتمل ہوتا ہے جن سے نام نہاد ناجائز محبت، عشق و عاشقی اور جنون و دیوانگی جنم لیتے ہیں۔ جن کا نتیجہ زنا، ہم جنس پرستی، فعل قوم لوط، گینگ ریپ وغیرہ کی شکل میں نکلتا ہے جن کی بنا پر لوگ اللہ تعالی کی بہت زیادہ نافرمانی کے مرتکب ہو کر اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے سورۃ النور میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

“ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشة في الذين امنوا لهم عذاب اليم في الدنيا و الآخرة۔” (النور: 19)

“بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیل جائے، ان کے لیے دنیا وآخرت میں درد ناک عذاب ہوگا ۔“

یعنی وہ تمام ذرائع و وسائل جن سے فحاشی وعریانی اور بے حیائی کی اشاعت ہو، بے راہ روی اور اخلاق باختگی کے دروازے کھلیں, ممنوع اورحرام ہیں۔

مغربی ثقافت کی یلغار

اگر مغربی تہذیب کی اس دستک کو نہ روکا گیا تو ہمارا معاشرہ مغربی تہذیب میں رنگ جائے گا۔مسلمان قوم کی اپنی الگ پہچان, اپنا الگ تشخص, اپنی الگ تہذیب , غرض کہ سب کچھ الگ ہے اور یہ مغرب اور مغربی تہذیب سے بہت ممتاز ، خوبصورت، جامع اور فطرت کے قریب تر ہے۔ اگر مسلمان اپنی تہذیب کو بھلاکر کر اغیار کی نقالی کررہے ہیں تو یہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔

جرائم کا فروغ

اگر عالمی بےحیائی اور اباحیت کے اس دن کو روکا نہ گیا تو ویلنٹائن ڈے منانے کے نتیجے میں اہل مغرب کے بے حیائی، فحاشی، عریانی، زنا، ہم جنس پرستی وغیرہ کے منفی اثرات و نتائج ہمارے معاشرے میں بھی لاگو ہوتے نظر آرہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں جرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھ جائے گی اور پھر ہر سو ایڈز, ایچ آئی وی اور کرونا وائرس سے بھی بڑھ کر خطرناک جنسی، جسمانی، روحانی، اور نفسیاتی بیماریاں بڑھتی چلی جائیں گی۔ یہ مسلمانوں کا معاشرہ نہیں بلکہ مغربی معاشرہ کی طرح کی مثال بن جائے گا۔

کیا ہم محبت کے دشمن ہیں؟

اس دن کی ترویج کرنے والے عناصر ہمیں یہ کہتے ہیں کہ تم محبت کے دشمن ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم تو محبت کے داعی ہیں۔ اللہ سے محبت عبودیت کا اہم حصہ اور مقصد زندگی ہے۔ والدین سے محبت، رشتہ داروں سے محبت، میاں بیوی کا باہمی رشتہ، اولاد سے محبت، یہ فطری محبتیں نہ کسی موسم کی پابند ہیں نہ ہی کسی تاریخ کی۔ ویلنٹائن ڈے کے نام سے جس محبت کی بات کی جاتی ہے، تو یہ لفظ محبت کا صرف مذاق ہے۔ یہ محبت نہیں بلکہ جنسی ہوس ہے۔ یہ محبت نہیں بلکہ آوارگی و فحاشی اور بے حیائی ہے۔ یہ محبت نہیں بلکہ اسلام کے خاندانی نظام پر نقب ہے۔یہ محبت نہیں بلکہ نوجوان نسل کی تباہی و بربادی کا پیغام ہے۔

اسلامی طرز عمل

اسلامی شریعت نے اس حوالے سے ہماری مکمل راہنمائی کی ہے کہ اس طرح کے مواقع پر ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟

1 غض بصر

یعنی اپنی نگاہوں کو پست رکھنا۔

مومنین کی یہ بڑی اہم صفت ہوتی ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور آنکھوں کی خیانت اور دیگرگناہوں سے بچتے ہیں۔اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں سورۃ النور میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

“قل للمومنين يغضوا من ابصارهم و يحفظوا فروجهم۔” (النور:30)

ترجمہ: ” (اے نبی) کہہ دیجئے مومن مردوں سے کہ وہ اپنی نگاہوں کو پست رکھیں اور اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔”

حفظ فرج

یعنی شرمگاہ کی حفاظت کرنا۔

مومنین اپنی شرم و حیا اور عزت و عصمت کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے ستر کو کسی غیر محرم کے سامنے نہیں کھولتے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے سورۃ المومنون میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

“والذین ھم لفروجھم حفظون۔” (المؤمنون: 5)

ترجمہ: “اور وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔”

فروغ حیا 

یعنی حیا کو عام کرنا کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے اور اس کے بغیر کامیاب زندگی ممکن نہیں ہو سکتی۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ:

“الحیاء من الایمان۔” (صحیح بخاری:24)

ترجمہ: “حیا ایمان کا حصہ ہے۔”

حیا صرف بھلائی اور خیر و برکت کا باعث بنتی ہے۔ جب انسان میں حیا ختم ہو جائے تو پھر انسان کا جو دل چاہے وہ کرے۔ حیا انسان کے اندر بہت ساری صفات پیدا کرکے انسان کو انمول موتی کی طرح قیمتی بنا دیتی ہے۔

لعل و گہر کو حفاظت سے رکھا جاتا ہے

سنگریزے یونہی رستے میں رلتے ہیں۔

اعراض

یعنی جاہلوں سے منہ پھیر کر ان سے بے توجہی برتنا۔ مومنین ان کی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار نہیں کرتے اور اپنے افعال میں مصروف رہتے ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ:

“والذین ھم عن اللغو معرضون۔” (المؤمنون:3)

“وہ لغو (یعنی بے مقصد کاموں) سے اعراض کرتے ہیں۔”

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئےاس دن کی مخالفت اور مذمت کرنا ہمارے لئے ضروری ہے کیونکہ شرم و حیا اور عزت و عصمت کی حفاظت اور بے حیائی کی روک تھام ہماری دنیاوی اور اخروی فلاح کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ ہمارے دینی فرائض میں شامل ہیں کہ ہم اپنی اسلامی اقدار و روایات کی حفاظت کریں اور معاشرے میں بے حیائی کے فروغ کو روکیں اور حیا کے چلن اور طور طریقوں کو عام کریں خصوصاً خواتین میں حجاب اور پردہ کے کلچر کو پروان چڑھائیں۔ نہ صرف اپنے اقوال و افعال کے ذریعے بلکہ اپنے کردار کے ذریعے بھی ہم بھلائی اور حیا کے علم بردار بنیں۔ تاکہ کل آخرت میں ہم اللہ سبحانہ وتعالی کے آگے سرخرو ہوسکیں۔

اگر ہم نے بےحیائی کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش نہ کی اور اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کیں تو پھر کہیں ہمارا معاملہ یہ نہ ہو جائے کہ

؎ تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں