وقت کی قدر زندگی کا حسن

ہماری زندگی ہی ہمارا معینہ وقت ہے تو دراصل ہمارے لئے سب سے اہم چیز ہمارا وقت ہے کیونکہ اگر ہم اپنے کاموں کو وقت پر ادا نہیں کرینگے تو گویا ہم اس وقت کو ضائع کریں گے جن میں ہمیں مخصوص کام کرنے تھے ۔ اسطرح ہم کام بھی نہ کر پائیں گے اور یوں خسارہ ہی ہمارے ہاتھ آئے گا ۔ واقعی وقت کی قدر کرنا اس کے گزرنے کا احساس کرنا اور ہر لمحے کو اہم جان کر پاکیزہ اور طاہر کام کرتے رہنا ہی دانائی ہے اور شکران نعمت ہے ۔ جب ہم کوئی کام کرنے کیلئے پروگرام بناتے ہیں تو ٹائم کوسیٹ کرتے ہیں کہ اتنے بجے تک ہمیں یہ ، یہ کرنا ہے اور اتنی رفتار سے کرنا ہے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا کام بالکل صحیح اور وقت پر احسن طریقے سے ہو جاتا ہے اس طرح اوقات اور کاموں کو منظم کرکے بعض دفعہ حیرت انگیز نتا ئج نکلتے ہیں۔

دیکھا نہیں کچھ لوگ سارے کام کرلیتے ہیں اور ان کے پاس وقت پھر بھی بچ جاتا ہے جبکہ زیادہ تر لوگ وقت کی کمی کا رونا روتے ہیں ۔ ادھورے کام اور غیر منافع بخش نتا ئج سے دل برداشتہ ہوتے ہیں ۔ زندگی بڑی مختصر اور بڑی قیمتی اسی وقت کے تعین کی وجہ سے ہے ۔ وقت کی قدر کرنے والے کے وقت اور کام دنوں میں برکت آجاتی ہے اور ذمہ داریاں سمیٹنے میں چلی جاتی ہیں ۔ واقعی سوچیں قدرتی مظاہر کتنے پر کشش ہوتے ہیں منظم ہوتے ہیں صرف اس لئے کے وہ تو ہمیشہ وقت کے پابند ہوتے ہیں ۔ دن ، رات ، گرمی ، سردی خزاں بہار موسمی خزاں بہار موسمی پھل سبزیاں سب اپنے اپنے وقت پر قدرت پیش کرتی ہے یہی ہمارے لئے عملی نمونہ ہیں ۔ جب ہم رات کو جلدی سوتے ہیں کام نمٹا کر تو سکون سے سوتے ہیں صبح ہی صبح آنکھ بھی کھل جاتی ہے اذانیں سنائی دیتی ہیں۔ اکثر تہجد بھی مل جاتی ہے گویا کہ خوشیاں ملتی جاتی ہیں۔ورنہ رات دیر تک جاگتے رہیں۔ الٹے پلٹے کاموں میں ضائع رات کے اوقات کریں تو کیا ہوتا ہے؟اسکی نحوست سے صبح نہ اذان کی آواز آ تی ہے ، نہ مرغوں کی ، نہ الارم کی پھر اگر اٹھ بھی گئے تو تازگی نہیں ہوتی بلکہ مزید کاہلی سستی اور عبادات کے ضائع ہونے کا افسوس نحوست بن کر سارا دن غمگین کئے ہوتا ہے جگہ جگہ منہ کی کھانی پڑتی ہے پھر ہم خود ڈنڈی مارتے ہیں ۔وقت کو تو واپس لا نہیں سکتے ، بے ربطی اور بے ترتیبی سے مزید کوفت ہوتی ہے ۔ بچپن کا سوچیں کیسے اذانوں سے ہمارے بزرگ اٹھ کر نمازوں کو جاتے تھے، پھر دفتر کیسی پھرتی تھی گھر کے سارے ہی کاموں میں لگے رہتے اور وقت پر ہر چیز میسر ہوتی تھی ناشتہ ، دوپہر کا کھانا ، دوپہر کا آرام پھر شام میں تھوڑا کام اور کھیل تھوڑا چائے یا بسکٹ اور پھر کام سب کا اکٹھا ہو کر کھانا کھانا سب کا مل جل کر ایک دوسرے کی مدد کرنا ۔ دادا ، دادی کی خدمتیں ، امی ، ابو سے بات چیت مسائل کا حل ، پڑھائی کے مسائل کا حل اور پھر کھانے کے بعد جلدی جلدی صبح کی تیاری ، نمازیں اور ایک دوسرے کو قصے کہانیاں یا ٹیسٹ کے جوابات سنتے سناتے سو جانا اور پھر کیسے وقت آگے بڑھتے بڑھتے ہمیں کتنا بڑا کر گیا کہ سب چھوٹے بڑے ہو گئے اور سب کے عہدے اور رشتے تبدیل ہوتے رہے ۔کزنز جنہیں باجی کہتے تھے ۔ آج کسی کی بھابی بن گئیں ۔ کتنی سادگی سے شادیا ں اور دیگر رسومات ہوتی تھیں نہ زیادہ پریشانیاں تھیں نہ ٹینشن میری امی کو اتنا بازار جاتی بھی نہ تھیں پھر بھی شادی بیاہ کی تیاری ہو گئی ۔ ایک نہیں دو نہیں آٹھ مرتبہ شادی کی تقریبات ہوئیں مگر انہیں اتنی بے چینی اور ٹینشن نہ تھا جتنا آج سب کچھ ہوتے ہوئے لوگ محسوس کرتے ہیں کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ۔ نہ چھوٹے مطمئین نہ بڑے پرسکون!! سب کے سب فیشن اور میڈیا کے مارے ایک دوسرے کو پیچھا چھوڑنے کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ خواہشات کو ضروریات سے زیادہ بڑھا کر خود پریشان ہیں ۔ ورنہ اپنی حیثیت ، وقت اور ذمہ داری کا احساس کرے محدود پیمانے پر معتبر طریقے سے ایک دوسرے کو اعتماد میں لیتے ہوئے تعاون سے کام کیا جائے اور بے لوث ہو کر بے غرض ہو کر فرا ئض کی بہترین تکمیل کیلئے تو یقین جانئے آج بھی ہم محدود آمدنی اور وسائل میں وقت پر کام کرکے بہترین نتائج حاصل کرسکتے ہیں اور یہی درحقیقت زندگی کا حسن اور آسودگی ہے کوئی بھی کام ہو پڑھائی ، نوکری ، شادی بیاہ یا کوئی اور کام احسن طریقے سے کیا جا سکتا ہے ۔ مگر بس کوشش یہ ہونی چاہئے کہ توکل کے ساتھ وقت پر ہی کام کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش بلا لالچ کی جائے اور تقدیر پر شاکر رہا جائے تو اللہ تعالیٰ تو ہیں ہی قدر دان وہ ضرور نوازتے ہیں اور آپکے گمان کے ساتھ ہیں ۔ اچھی نیت اچھی سوچ اور مثبت کام قدر دانی کے ساتھ شکر گزاری کے ساتھ وقت پر کردیا جائے تو بندہ ہزارہا پریشانیوں سے بچ جاتا ہے یہی تو زندگی کا حسن ہے اس مختصر سورۃ العصر میں کتنی اچھی طرح سمجھایا گیا ہے کہ بے شک تمام انسان خسارے میں ہیں سوچتے ہیں کیسے ؟ ایمان کو چیک کیجئے ایمان لائے ؟ اللہ پر آخرت پر دل سے اللہ کی محبت اور جواب دہی کا خوف لئے ہوئے ہیں ؟ خدا خوفی کے احساس سے ڈر کر بچتے ہیں برائی سے ؟ حق بات کرتے ہیں ؟ حق بات کرنے میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ صبر سے کرتے ہیں ؟ حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے ہیں ؟ جتنا کرتے ہیں اور جتنا نہیں کرتے سب ہمیں اور ہمارے ضمیر کو معلوم ہے ۔ جب ہم پیسے دیکر کوئی مطلوبہ شے خریدتے ہیں تو اندازہ لگا تے ہیں کہ یہ چیز اتنے ہی کی ہوگی مگر اگر وہ چیز ہمیں اتنے کی نہ ملے بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ کی ملے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارا تو خسارا ہو گیا ؟ اس طرح جو چیز زندگی (اسکا معینہ وقت اور دنیا ) دی گئی اس کی قیمت میں لگا دی گئی قدرت نے کہ عمل صالح ، ایمان ، حق بات اور صبر کی تلقین ہم نے اتنی کی ہی نہیں جتنی کرنی چاہئے تھی ۔ فائدہ پورا پورا اٹھا یا مگر اسکا عوض انتہائی کم دیا ۔

بے دلی بے رغبتی سے دیا تو ہمیں منافع کیسے ملے گا ؟ ہوا نا خسارا ہی خسارہ جب آنکھ ، ناک ، کان ، ہاتھ پائوں کھال سب بولیں گے تو ہم کیا کرینگے ۔ وقت کہاں لگا ؟ کیا کمایا ؟ کہاں خرچ کیا؟ سوچیں !! تیاری ہے ! منافع یا نقصان !! اللہ کی شان سجھائی تو سب دیتا ہے مگر عمل ناگزیر کیوں ؟ بس یہیں سے خسارہ شروع ہے!!! زندگی معینہ مدت ہے ۔ مخصوص وقت خاص عمر ہے ایک لمحہ آگے نے ایک لمحہ پیچھے ، مگر قابل غور بات یہ کہ کسی کو نہیں معلوم لمحات زندگی کتنے باقی ہیں ؟ پلاننگ تو برسوں کی ہے ۔ ہفتوں مہینوں کی ہے ۔ آج سے ہی کل کی فکر ہے دنیا کی کیا کرینگے ؟ کہاں جائینگے ،کیسے؟ کیا کھائیں گے؟ یا یہ کہ کیسے پیسے بنائیں گے مگر واقعتا ہمیں پل کی خبر نہیں ، گاڑی میں پیٹرول چولہے میں گیس ، موبائل میں چارج یا پیسے ختم ہونے کی فکر مگر زندگی کی بالکل نہیں۔ بس اسی زندگی ہر لمحے کی فکر بھی ایسی ہی ہونی چاہئے کہ ہمیں لمحے لمحے کا حساب دینا ہے اور ہمیں تو کیا ہمارا انگ انگ ، پو ر پور بولے گا اس وقت کیلئے کیا کیا ہے ؟ جب اس فکر کے ساتھ زندگی گزرے گی سورۃ العصر کے مطابق کو انشاء اللہ زندگی کا حسن نظر آنا شروع ہو جائے گا ۔ انشاء اللہ