واہ! محمد علی سدپارہ۔

سدپارہ  بلتستان کے شہر سکردو کے نواح میں آباد ایک گاؤں کا نام ہے اور یہاں کے رہنے والے دوسرے علاقوں کے رہنے والوں کی طرح اپنے علاقے کی پہچان کے طور پر سدپارہ لکھتے ہیں، جو کہ انکی اپنی سنگلاخ زمین سے محبت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ یوں تو ہرکم ترقی یافتہ یا پھر گمنام جگہ سے نکل کر کسی بھی قسم کی شہرت پانے والے اپنے آبائی وطن یا علاقے کا نام بطور لاحقہ استعمال کرتے ہیں جو اس بات کی گواہی ہوتی ہے کہ انہیں اپنے خمیر میں گندھی مٹی سے کتنی محبت ہوتی ہے اور وہ اسکی گونج ساری دنیا میں سننا چاہتے ہیں۔ جذبات اور احساسات انتہائی نجی ہوتے ہیں کوئی کسی کے جذبات و احساسات تک لاکھ چاہنے پر بھی رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔محنت مشقت، لگن، جستجو، عزم اور حوصلہ کسی خاص علاقے یا مٹی کی مراث نہیں ہے یہ ہر انسان کو خدا کی طرف سے عطاء کردہ گہرِ نایاب ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انکا استعمال ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی؛سدپارہ پہاڑوں میں بساایک گاؤں یا وادی ہے۔ دنیا کو ہمیشہ ایسے لوگ اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں جو اپنے اندر موجود مذکورہ صلاحیتوں کو پہچان لیتے ہیں اور انہیں استعمال میں لاتے ہوئے ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اوراللہ رب العزت کبھی کسی محنت کش کی محنت رائیگاں جانے نہیں دیتے اسی لئے محنت میں عظمت رکھی گئی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ سب ہی شہرت کی بلندیوں کو چھوپائیں ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بلندی کے قدموں سے ہی لوٹ جاتے ہیں۔دراصل کامیابی آپ کے سہل پسندی کے دائرے سے باہر ہوتی ہے اور ہم تمام کوششیں اپنی سہل پسندی کیلئے کرتے ہیں۔

ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ سماجی ابلاغ کے توسط سے محمد علی سدپارہ جو کہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والا پہاڑوں جیسی ہمت اور حوصلہ رکھنے والا کوہ پیما سے تعلق جڑا جب وہ اپنے بیٹے اور دو غیر ملکی کوہ پیماؤں کیساتھ بغیر آکسیجن لئے کے ٹو کی چوٹی پر پاکستان کا جھنڈا لگانے کیلئے نکلا، یہ سبز ہلالی جھنڈے سے ہماری محبت کا ثبوت تھا کہ پھر ہم سماجی ابلاغ پر محمد علی سدپارہ کے پیچھے ہولئے۔ اس کا عزم اور حوصلہ اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ وہ اپنے ساتھیوں کیساتھ اس چوٹی کو سر کر لے گا۔ شدید موسم میں ایسا فیصلہ کرنا اپنے پیشے سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھنے والے ہی کیا کرتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قسمت ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہے۔ قسمت نے ساتھ دیا مختلف کوششوں کے بعد پاکستان کا سبز ہلالی پرچم کے ٹو کی چوٹی پر لہرایا گیا لیکن سفر میں موسم کی شدت میں مزید اضافہ ہوا اور محمد علی اپنے دو غیر ملکی ساتھیوں کے ساتھ برف کی گھاٹی میں کہیں گم ہوگئے۔ قدرت کے کام قدرت ہی جانتی ہے محمد علی کا بیٹا ساجد علی بخیر و عافیت پہنچ گیا اور اپنے ساتھیوں کے گم ہوجانے کی اطلاع دی جس پر اداروں نے غائب ہونے والے کوہ پیماؤں کی تلاش کیلئے کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا اور ساجد علی کی نشاندہی پر مخصوص جگہوں کا موعانہ بھی کیا لیکن وہاں سے انہیں کسی قسم کے کوئی زندگی کے آثار نہیں دیکھائی دئے، موسم اپنی شدت پر ہے جس کی وجہ سے مزید تلاش کی کاروائی کا سلسلہ منقتع کر دیا گیا ہے اور اسطرح سے سرکاری سطح پر محمد علی سدپارہ اور انکے غیر ملکی ساتھیوں کی موت کی تصدیق کردی گئی ہے۔ جیسا کہ درجہ بالا سطور میں آگاہ کیا ہے کہ ہم محمد علی سدپارہ کے نام سے واقف تھے اسکی وجہ پاکستان کی کوہ پیمائی میں انکے کار ہائے نمایاں ہیں۔ تقریباً بارہ چوٹیاں وہ ہیں جو آٹھ ہزار فٹ بلند ہیں اور محمد علی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ ان میں سے ابتک آٹھ پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا چکے ہیں۔

مغرب والے جب اپنی زندگی سے تھک جاتے ہیں تو وہ اپنی بے رنگ زندگی میں رنگ بھرنے کیلئے کسی مہم جوئی کا سہارا لیتے ہیں، انکو وسائل کی کوئی کمی نہیں ہوتی انہیں صرف راستہ چاہئے ہوتا ہے جبکہ تیسری دنیا کے لوگ دووقت کی روٹی کمانے کیلئے اپنی زندگیاں ایسی کسی بھی مہم جوئی کی نظر کردیتے ہیں جن سے انہیں دنیا جان سکے یا نہیں وہ اپنے گھربار کیلئے کھانے پینے کا بندوبست کرسکیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے اس پر پھر کبھی تیز روشنی ڈالینگے۔ ہمیں نہیں معلوم پاکستان کی شان محمد علی سدپارہ کیساتھ لاپتہ ہونے والے دو غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ممالک میں کس قسم کا رد عمل ہوگا لیکن پاکستان میں جہاں تک یہ خبر پہنچ رہی ہے وہاں ایک گہرا دکھ کا بادل چھاتا جا رہاہے۔ ہم پاکستانیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے غم میں لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور یا پھر سدپارہ سب ایک ہوجاتے ہیں، اہل خانہ کا دکھ اپنے دل میں محسوس نا بھی کرتے ہوں لیکن دکھ کی گھڑی میں ساتھ ضرور کھڑے ہوتے ہیں۔

عنوان میں آہ! محمد علی سدپارہ لکھنا چاہتا تھا لیکن محمد علی سدپارہ کے مزاج کے خلاف لگا اور آہ کی جگہ واہ نے لے لی۔ وہ پہاڑوں کی سنگلاخی سے واقف ہوتے ہوئے خوف زدہ نہیں ہوا تو بھلا اسکے نام کیسا تھ آہ کیسے لکھا جاسکتا ہے وہ عزم اور حوصلے کا ایک نیا میعار قائم کرگیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کیوں لیکن میرا دل ماننے کو تیار نہیں ہے کہ انہیں برف سے ڈھکی سنگلاخ چٹانوں نے اپنے سینے میں دفن کر لیا ہے، اس وقت تقریباً پاکستان اور دنیا میں جہاں جہاں کوہ پیمائی کے شوقین بستے ہیں وہ سب اپنے رب کے حضور دعا کر رہے ہونگے کہ محمد علی سدپارہ اور انکے ساتھیوں کو زندہ سلامت زمین پر پہنچا دیں،اور مجھے لگ رہا ہے کہ انکی زندگی کی نوید سنائی دے گی۔ اسے کسی دیوانے کا خواب کہیں یا کچھ بھی۔ ان گمشدہ لوگوں کو ایسے موسم کا سامنا ہے کہ جہاں زندگی منجمد ہوجاتی ہے ہماری سماعتیں ایک بار پھر محمد علی سدپارہ کو سماجی ابلاغ پر اپنی خیریت کی خبر دیتے سن سکیں یہ صرف میرے اللہ کے کن کی محتاج ہے۔ ہم نے محمد علی سدپارہ کیلئے جو کچھ لکھا ہے سب کچھ قلم سے قلب تک ہے کسی خاص تگ و دو کی ضرورت نہیں پڑی، اگر کسی بات سے کسی کو تکلیف پہنچی ہویا پھر تحریر میں کچھ صحیح نا لکھ پائیں ہو ں تو اصلاح کیجئے گا یا پھر نظر انداز کر دیجئے گا۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔