سوشل میڈیا ضرورت یا وقت گزاری

سوشل میڈیا ایک ایسی مجسم حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ہر فرد اس کے زیر اثر نظر آتا ہے خواہ امیر ہو یا غریب۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں جب دنیا گلوبل ولیج بن کر رہ گئی ہے تو اس کے فوائد و نقصانات دونوں ہی روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔پرانے وقتوں میں ایسا ناممکن تھا کہ گھر بیٹھے روزگار میسر آئے لیکن آج کے دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ گھر بیٹھے کما رہے ہیں۔آج کل لوگ ٹی وی فنکاروں سے زیادہ یوٹیوب پہ ولاگ بنانے والوں کو جانتے ہیں۔

یوٹیوب پہ چینل چلانے والے مشہور اداکاروں جتنی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے اب شہرت حاصل کرنا نہایت آسان ہے۔بس کوئی بھی ویڈیو یا تصویر وائرل کر دو اور چند ہی دنوں میں شہرت کی بلندیوں کو چھو لو۔یہ کامیابی نیک نامی میں بھی ہو سکتی ہے اور بدنامی میں بھی۔آج کل کے مشہور ٹک ٹاکرز ٹی وی اور فلم کے اداکاروں کی طرح پروگراموں میں مدعو کیے جاتے ہیں کیونکہ ان کے فالورز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

 اسی طرح آج کل لوگ اخبار اور جرائد سے زیادہ ویب سائٹس پر بلاگ پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ بلاگنگ بہت آسان کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے جس سے مرد و خواتین گھر بیٹھے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ہر طرح کے موضوع پر بلاگ، ویب سائٹس اور ویڈیوز موجود ہیں۔

 اس نے فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے اور دنیا آپ کے ہاتھ میں ہے۔صرف ایک کلک کی بدولت آپ ہر طرح کی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ روز نئی خبریں چاہے اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک آپ کی دسترس سے باہر نہیں۔سوشل میڈیا ویب سائٹس میں زیادہ مشہور فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا،ٹک ٹاک، یوٹیوب اور لنکڈان ہیں۔

فیس بک اور ٹیوٹر پر لوگ بعض اوقات کسی خاص مقصد کے لئے تحریک چلاتے نظر آتے ہیں جس کے مثبت اثرات سامنے آئیں۔ مثلاً کشمیر کے موجودہ حالات، زینب اور اس جیسی دیگر بچیوں کے لئے انصاف کی تحریک، فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی یا کسی خاص مسئلے پر حکومت کی توجہ مبذول کروانا اب نہایت ہی آسان ہو گیا ہے۔

اس کا سب سے بہترین فائدہ یہ ہے بچھڑے ہوئے دوست اور رشتہ دار باآسانی سالوں بعد ایک دوسرے سے رابطہ کرسکتے ہیں۔وہ دوست احباب جو زندگی کے جھمیلوں میں آپ سے بچھڑ چکے ہیں ان کو ڈھونڈنا اور رابطہ کرنا بہت آسان ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا کے نقصانات سے آج کل ہر وہ شخص متاثر ہوتا ہے جو اس کا استعمال کر رہا ہے۔جس طرح اس دنیا کے فاصلے اس قدر سمیٹ آئے ہیں کہ غیر تو اپنے بن گئے ہیں مگر ہمارے اپنے ہماری شکلوں کو دیکھنے کے لئے ترس گئے ہیں۔باپ کو بیٹے، بیوی کو شوہر، بچوں کو باپ، بہن کو بھائی اور بھائی کو بھتیجوں، دادا دادی کو پوتوں پوتیوں سے بات کرنے کے لئے کسی دعوت کا یا کسی خاص محفل کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہر کوئی موبائل میں سر دئیے بیٹھا ہے چاہے گھر ہے یا بازار، دوکان ہے یا ہسپتال، پارک یا کوئی تفریح گاہ۔ہر کوئی صرف اپنا اسٹیٹس ڈالنے میں مشغول نظر آتا ہے۔لوگ تو کھانے سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھتے بلکہ تصویر کھینچ کر اپلوڈ کرتے ہیں.جسے دیکھ کر سڑ کر جواب آتا ہے “اکیلے اکیلے”

ہر نئی چیز گھر آنے پر صدقہ خیرات نہیں کیا جاتا بلکہ اسٹیٹس ڈالا جاتا ہے تبھی کچھ دن بعد خبر ملتی ہے کہ نیا اسکوٹر یا گاڑی چوری ہو گیا ہے اور یہ اطلاع آپ کی حرکات کی وجہ سے چوروں تک پہنچتی ہے. زندگی بس دکھاوا بن کر رہ گئی ہے۔

ایک کلک کی بدولت ہر گندی ویب سائٹ تک رسائی نے تشدد، زنا، جنسی استحصال اور بے راہ روی کے واقعات عام کردئیے ہیں۔ چھوٹی بچیوں اور بچوں کی عزت تک محفوظ نہیں۔ لڑکیوں کے گھر سے بھاگنے کے واقعات اور طلاق کی شرح میں اضافہ بھی سوشل میڈیا کا ہی کرشمہ ہے۔نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا پر برباد کرتے نظر آتے ہیں۔امتحانات میں امتیازی نمبر لینے والے طلبہ ہمیشہ آپ کو سوشل میڈیا کا کم یا بہت محدود استعمال کرتے دکھائی دیں گے کیونکہ سوشل میڈیا کا بے جا استعمال آپ کا قیمتی وقت ضائع کرنے میں کافی موثر ہے۔

سوشل میڈیا کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ باتیں جو گھر تک رہتی تھیں اب بازاروں اور چوراہوں پر زیر بحث لائی جاتی ہیں۔شرم و حیا اور عفت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ جن موضوعات پر خواتین آپس میں بات کرنے سے جھجکتی تھیں آج ان موضوعات کو مارنگ شوز اور خبروں میں زیر بحث لایا جا رہا ہے۔

اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اب آپ کی کوئی معلومات ذاتی نہیں رہیں بلکہ سب کچھ “پبلک” ہو چکا ہے۔اسی لیے اب ذاتی معلومات تک رسائی نہایت آسان ہے جو کہ ایک خطرناک حقیقت ہے۔

سوشل میڈیا نے لوگوں کو بہت تیزی سے بدلا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے بچوں کو اس کے نقصانات سے محفوظ فرمائے اور اسکا مثبت استعمال کرنے کی توفیق دے آمین