پرورش کی ٹھوس بنیاد کیا ہے؟‎

بابا موبائل دیں نا … کوکومیلن لگائیں … اچھا نا لگا رہا ہوں .. تم بستر پر بیٹھ جاؤ او ر مجھے کام کرنے دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت سے والدین یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے بچے جوں جوں بڑے ہورہے ہیں، ان سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں جبکہ ان کا گلہ سچ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس رویے کا بیج بہت پہلے یعنی بچپن میں ہی بویاجاچکا ہوتا ہے اور نوجوانی کے دور میں اولاد کے اپنے ماں باپ کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کا انحصاراس بات پر ہے کہ وہ بچپن میں انہیں کتنا وقت دیتے ہیں اور یہ پرورش کا انداز ہی ہے جو تعلقات کو ٹھوس یا کمزور بنیاد فراہم کرتا ہے۔

بچوں سے کچھ والدین کا بات کرنے کا انداز تحکمانہ اور کچھ کااس سے بھی آگے بڑھ کر ہٹ دھرمی اور اپنی بات منوانے والاہوتا ہے اور اس کے برعکس بعض والدین بہت ہی مہربان ہوتے ہیں جبکہ کچھ اپنے بچوں سے بالکل لاتعلق نظر آتے ہیں، تاہم بچوں کی والدین کے ساتھ وابستگی ہی نہیں،بچوںکے آپس اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی کا انحصار بھی بڑی حد تک پرورش کے انداز پر ہوتا ہے۔

مجھے یاد نہیں کہ کبھی میرے بابا نے ہم بھائیوں کو غصے سے ڈانٹا ہو ، یہاں تک کہ میری بیٹی تک کو کبھی نہیں ڈانٹا ہوگا .. اچھے تعلقات بہتر ابلاغ سے بنتے ہیں اور دوسرے کی بات توجہ سے سننا ابلاغ کا پہلا اصول ہے اور اگر آپ اپنے بچے کی معمولی سی بات بھی دھیان سے سن رہے ہیں اور اسے اس بات کا یقین دلا رہے ہیں کہ آپ ہر حال میں ان کے ساتھ ہیں تویہ عمل بچوں کے آپ پر بھروسے اور اعتماد کومضبوط کرے گا، اسی اعتماد کی وجہ سے وہ آپ سے ہر بات شیئر کریں گے۔

 پرورش کا آئیڈیل انداز وہ ہے جس میں والدین بچے کی بات پوری طرح سے سننے کے بعد مانتے بھی ہیں اور دوسری طرف بچے بھی اسی جذبے اور رویے کا اظہار کرتے ہیں اور اس طرح وہ بچے کو بات ماننے کے ساتھ ساتھ اپنی بات بہتر انداز میں منوانا بھی سکھاتے ہیں جبکہ والدین اور بچوں کے درمیان کمزور تعلق کی ایک وجہ والدین کا اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں وقت نہ دینا ہے اور موجودہ دور میں بچوں کوعموماً تین سال سے بھی کم عمر میں اسکول بھیج دیاجاتا ہے (سوسائٹی کو دکھانے کے لیے خاص طور پر)۔

 یہی وجہ ہے کہ والدین سے ان کی جذباتی وابستگی نہیں ہوپاتی اورنہ ہی انہیں صحیح انداز میں خاندانی، ثقافتی اور مذہبی اقدارمنتقل ہوتی ہے کیونکہ بچے کی پڑھائی کم از کم چار سے پانچ سال کی عمر کے بعد شروع ہونی چاہیے تاکہ وہ والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارسکے۔

واضح رہے اس عمر میں بچہ بہت تیزی سے سیکھتا ہے اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ انہیں ذہنی لحاظ سے اچھی بنیاد فراہم کریں، بچوں کی تعلیم کا زمانہ شروع ہونے کے بعد والدین کی طرف سے پہلی بڑی غلطی اولاد کادیگر بچوں کے ساتھ موازنہ کرناہے اور یہ عمل خواہ اسکول میں ہو یااس سے باہر، بچوں کی تربیت پربہت بڑا اثرڈالتا ہے، اسی طرح والدین کا اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو زیادہ اہمیت دینابھی غلط ہے۔

خیال رہے تعلیمی میدان میں بچوں کے لیے کسی خاص شعبے کا انتخاب بہت اہم ہے اور اس حوالے سے جب والدین بچوں کی دلچسپی کے خلاف ان پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں تونہ صرف بچوں کے ذہن میں ان کے لیے بغاوت اٹھتی ہے بلکہ وہ اسے اپنے لیے بوجھ بھی سمجھتے ہیں جبکہ اس شعبے میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ان میں آگے بڑھنے کا شوق ختم ہوکررہ جاتا ہے اور بعض اوقات ایسا وقت بھی آتا ہے جب بچے تین یاچار سال بعدان مضامین میں ناکام ہوکرپڑھائی کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔

دوسری طرف ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ والدین بچوں کے فیصلوں کو من وعن قبول کرتے جائیں، بعض اوقات اس عمر میں بچے کسی خاص شعبے سے متاثر ہوتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ ان کے لئے موزوں بھی ہو جبکہ اس مرحلے پر بچوں کو والدین کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ مخصوص شعبوں کے بارے میں بچوں کو اچھی طرح آگاہ کردیاجائے اور پھر مکمل ہوم ورک کے بعد انہیں اپنی مرضی کا شعبہ منتخب کرنے دیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ بچوں کی پسند کی مختلف فیلڈزایک جگہ پر لکھیں اوراس کے ساتھ اس فیلڈ سے متعلق محنت کا معیار اور دیگر ممکنہ نتائج بھی لکھیں اور پسند ہونے یا کرنے کی صلاحیت کے اس فرق کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد ہی بچے اپنے لئے صحیح فیصلہ کرپائیں گے (ہوم ورک کرائیں .. ان پر ظلم نا کریں )۔

یاد رہے بچوں کی شخصیت میں خود اعتمادی اچانک نہیں آتی، والدین کو انہیں بااعتماد بنانے کے لئے بچپن سے ہی کوشش کرنا ہوتی ہے اور اس کے لیے انہیں محفوظ ماحول میں محفوظ ایڈونچر کی اجازت ضرور دیں جبکہ ہر بات پر روک ٹوک کا عمل ان کی فیصلہ کرنے کی قوت کو متاثرکرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اعتماد کو بھی کم کرتاہے اور اس حوالے سے انہیں گھر سے باہر کی دنیا دیکھنے کے مواقع دینا بھی بہت اہم ہے یہ ہی وجہ ہے کہ میرا چھوٹا بھائی صبح ابو کے پاس آیا اور بولا میرے دوست پاکستان ٹوور پر جارہے ہیں .. تو ابو نے کہا تو کیا ہوا …اپنا موبائل دیا اور پیسے دیئے اور کہا تم جاؤ میں ٹکٹ کا بندوبست کرواتا ہوں اور وہ امی کو بتائے بغیر چلا گیا .. جب امی کو پتہ چلا تو معلوم ہوا وہ تو اب تک حیدرآباد عبور کرچکا تھا جس پر امی پریشان ہوگئیں مگر ہمارے بابا کے چہرے پر پریشانی کا کوئی ایثار نہیں تھا۔

اس کے ساتھ اپنے بچوں کو خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ گھلنے ملنے کی اجازت دیں اور انہیں گھریلو تقریبات میں شامل ہو نے کا بھی موقع دیں، تاہم اس سطح پران کا اعتماد اتنا ضروربحال ضرور ہونا چاہیے کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو وہ اپنے والدین کو بتاسکیں ورنہ اگر وہ چھپ کر کام کریں گے تو فیصلے غلط بھی لے سکتے ہیں اس لیے پرورش کے انداز اور ماحول میں تھوڑا سا ردوبدل کر کے آپ اپنے بچوں کو اچھی اور مضبوط بنیاد فراہم کر سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر مستقبل میں ان کی اچھی شخصیت کی تعمیر ممکن ہو پائے گی۔

شکریہ امی اور ابو … ہماری بنیادوں کو مضبوط بنانے کا …

حصہ
mm
محمد حماد علی خان ہاشمی نے ذرائع ابلاغ میں جامعہ اردو یونیورسٹی سے ماسٹرزکیا ہے اور اس کے ساتھ پروڈکشن کے کئی کورسیز بھی کئے جبکہ 12 سال سے صحافتی دنیا میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور پچھلے 3 ماہ سے روزنامہ جسارت ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ ہیں۔ سینئر کالم نگار، صحافی اور اردو کے استاد مرحوم سید اطہر علی خان ہاشمی کے بیٹے ہیں اور مختلف اخبارات ، میگزینز اور سماجی ویب سائٹس پر اپنی تحریروں سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ جرنلزم کی دنیا میں قدم سندھی چینل آواز ٹی وی سے کیا اس کے بعد فرنٹیر پوسٹ پر رپورٹنگ بھی کی اور 6 سال سماء ٹی وی سے بھی وابستہ رہے ہیں۔