لگام‎

“اسلام و علیکم باجی! آپ کے لیے مٹھائی لائی ہوں۔۔منہ میٹھا کریں۔”(نزہت خوشی خوشی مٹھائی کا ڈبہ لئے گھر میں داخل ہوئی۔)

“وعلیکم السلام! یہ تو بتاؤ کہ کس بات کی؟کیا اقرا کے یہاں خوشخبری ہے۔(میں نے اس کی بیٹی کا دریافت کیا۔۔۔ جس کی سال پہلے ہی شادی ہوئی تھی)

“نہیں باجی۔۔۔میری فوزیہ کا ہاتھ مانگا ہے۔۔ جمیلہ نے اپنے بیٹے کے لیے۔۔۔میں نے تو جھٹ ہاں کردی۔۔۔آخر بہن کے گھر بھی کوئی بیٹی دیتے سوچے؟ بس جلدی رخصتی مانگ رہے ہیں۔۔۔”

“اچھا ماشاءاللہ۔۔اپنی بیٹی سے پوچھا تم نے؟ میں نے فوزیہ کی طرف اشارہ کرکے پوچھا۔۔۔جو کنارے پر کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔”

“ہاں باجی ۔۔ دیکھا بھالا ہے۔۔لگی بندھی تنخواہ لاتا ہے۔۔شریف ہے۔۔اور کیا چاہیے۔۔۔پھر میری فوزیہ سے یہ جھاڑو پونچھا بھی نہیں کروائے گا۔۔۔خود میری بہن گھر میں سکھ کی کھاتی ہے۔۔بس اللّٰہ کا کرم ہے جو اس نے میرے گھر کا در کھٹکھٹایا۔۔”

نزہت میرے گھر میں کئی سالوں سے کام کر رہی تھی۔۔شروع میں دو بیٹیوں اقرا اور فوزیہ کے ساتھ آتی تھی پھر خدا کا کرنا کہ ایک سال پہلے اقرا کی شادی کی۔۔بچوں کے سر سے باپ کا سایہ تو بچپن میں ہی اٹھ گیا تھا نزہت نے ہی اپنے بچوں کو محنت مزدوری کرکے پالا تھا۔۔۔بڑے بیٹے کو درزی بنایا اور اس کو اس کے پیروں پر کھڑا کیا۔۔۔پھر چار بیٹیوں میں سے ایک فوزیہ کی ذمہ داری نبھانا رہ گئی تھی۔۔۔اور اب وہ اس سے سبک دوش ہونے کے لیے بے تاب تھی۔۔۔

اگلے دن نزہت میرے پاس آکر بیٹھی اور کہنے لگی کہ “باجی ۔۔۔! جمیلہ نے فوزیہ کی رخصتی ایک سال میں مانگی ہے۔۔اس لیے بی سی ڈالنا چاہ رہی ہوں۔۔میری لاڈوں کی رانی کو خوب ارمانوں سے وداع کروں گی۔۔۔”میں نزہت کو دیکھ رہی تھی اسکے انگ انگ سے خوشی عیاں تھی۔۔۔میں نے کہا۔۔۔”اچھا کوشش کرتی ہوں کہ کوئی بی سی شروع ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دن یوں ہی گزرتے گئے۔۔نزہت نے میرے پاس اپنی بی سی ڈالی اور اپنی بچی کے خواب بننا شروع ہوگئی ۔۔۔مگر قدرت نے اسے کچھ اور ہی دیکھانا تھا۔۔۔۔۔۔۔

میں لانج میں بیٹھی چائے پی رہی تھی کے دروازے کی گھنٹی بجی۔۔”باجی باجی ۔۔جلدی دروازے کھولیں ۔۔۔میں سامنے گئی تو نزہت حال سے بے حال کھڑی تھی۔۔میں نے اندر بلایا ۔۔پانی دیا پھر پوچھا کیا ہوا سب خیریت تو ہے۔۔۔

“باجی میری فوزیہ نہیں مل رہی ۔۔۔ میں آپ کے گھر سے کام کرکے سامنے گئی تو فوزیہ نے کہا ماں تو جا مجھے اختر صاحب کے یہاں جلدی جانا ہے۔۔ وہاں میلاد ہے۔۔ تو بھی کام کرکے وہاں آجانا آج وہاں دیر لگے گی ۔۔۔میں سامنے سے کام نمٹا کر اختر صاحب کے یہاں گئی تو نہ وہاں فوزیہ تھی اور نہ کوئی میلاد کی تقریب صبح سے سے بوکھلائی بوکھلائی پھر رہی ہوں مگر فوزیہ کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ہے۔۔ بڑے بیٹے اکبر نے بھی سارا محلہ چھان مارا مگر کوئی اتا پتا نہیں ہے۔۔میں کہاں جاؤں؟ میری بچی کہاں چلی گئی نہ جانے کس حال میں ہے..” نزہت پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور میں اس عجیب خبر پر سر پکڑے سوچ رہی تھی کہ کیا کیا جائے۔۔۔۔میں نے اس کو دلاسہ دیا کہ اللہ سے امید رکھو۔۔۔۔میں تمہارے بھائی کو فون کرتی ہوں ۔۔۔ اپنے بیٹے سے کہو تھانے میں رپورٹ لکھوا دے۔۔۔۔۔

دو دن اسی کشمکش میں رہے لڑکی ذات کا یوں غائب ہوجانا کچھ آسان نہ تھا مجھے تو نزہت کی حالت پر رحم آ رہا تھا کہ ماں کے دل کو کون سنبھالے۔۔۔۔ جوان اولاد غائب ہو گئی تھی۔۔۔

تیسرے دن صبح نزہت آئی تو غم و غصے سے بھری تھی کہنے لگیں ‘باجی! فوزیہ مل گئی ہے۔۔۔کریم ڈرائے کلینر کے پاس جو لڑکا سارم کام کرتا ہے اس کے ساتھ کم بخت بھاگی ہے اب تو نکاح بھی کرلیا ان لوگوں نے۔۔۔۔۔۔ نزہت بول رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے ۔۔۔ کہنے لگیں” باجی !کیا اولاد ایسے بھی دھوکہ دے سکتی ہے؟ میرے اندھے اعتماد کو یوں توڑ دیا ۔۔۔ میں کیا منہ دکھاؤں جمیلہ کو؟ پتہ نہیں کس گوار کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے اس نے۔۔۔میں ساری بات سن کر کر اس کو تسلی دینے لگی کیوں کہ پانی سر سے گزر چکا تھا۔۔۔۔۔

اس بات کو ابھی ہفتہ ہوا تھا کہ نزہت میرے گھر میں داخل ہوئی اور کہنے لگی۔۔۔” باجی! قدرت نے مجھ سے کتنے امتحان لینا باقی ہے۔۔ میں نے کہا “کیا ہوا؟” کہنے لگی…. “کل شام میں رات کی سبزی لے کر دو لقمہ کھانے بیٹھی تھی کہ دروازے پر کھٹکا ہوا دروازے پر گئی تو افوزیہ انتہائی زخمی حالت میں کھڑی تھی میں نے گلے لگایا کہ کیا ہوا ہے ہفتے بعد بیٹی کی شکل دیکھی تو اس حال میں روتے دھوتے بتانے لگی۔۔۔۔ امی صارم نے مجھے دو دن تو بہت پیار سے رکھا پھر تیسرے دن مجھے دھمکی دی کہ اپنے گھر والوں سے کہہ کے تجھے منھ مانگی قیمت پرخرید لیں ورنہ میں جس کو دل چاہے تجھے بیچ دوں گا ۔۔۔اس کی یہ باتیں سن کر میں سہم گئی مگر وہ ہر دن مجھے مارتا ہے۔۔۔اور یہی بات کہتا ہے آج میں نے اس کے آگے زرہ زبان کھولی تو میرا یہ حال کیا ہے۔۔۔۔

باجی! اب بتاؤ۔۔۔میں کہاں جاؤں؟ڈھائی لاکھ روپیہ مانگا ہے ۔۔۔میں غریب ذات کہاں سے بھروں؟ ” نزہت کہتے کہتے روئے جارہی تھی اور میں اس بے بس ماں کی شکل دیکھ رہی تھی جس نے ساری زندگی محنت سے حلال کما کر اولاد کو جوان کیا اور اولاد نے کیسا تمانچہ دیا کہ نہ عزت رہی نہ دھن۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نزہت نے میرے پاس جو بی سی شروع کی تھی اس سے ایک لاکھ بھرا ۔۔ باقی ڈیر لاکھ نجانے کہاں کہاں سے قرضے لے کر اس صارم نامی لڑکے کو دیئے اور فوزیہ کو اپنے گھر لے آئی۔۔۔آخر ماں تھی اپنی بے وفا ہی صحیح۔۔۔مگر سگی اولاد کو کسی جلاد کے ہاتھوں میں کیسے چھوڑ سکتی تھی۔۔۔

اب روز ماں بیٹی آتے ہیں، کام کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں نہ ہی نزہت کی آنکھوں میں وہ خوشی کے رنگ ہیں اور نہ ہی فوزیہ بے فکر سی مسکراہٹ لئے پھرتی ہے۔۔۔۔دونوں پیسہ کمانے کی مشین کی طرح اس قرضے کی ادائیگی کے لیے دن رات محنت کررہے ہیں۔۔۔

یہ کسی ایک گھر کی کہانی نہیں۔۔۔۔بلکہ ہمارے معاشرے میں کئی گھرانے ان فریب کاریوں کا شکار ہیں پھر چاہے وہ امیر طبقہ ہو یا غربت کی چکی میں پسنے والے لوگ۔۔۔

سوال یہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے اس قدر بےحیائی کے بڑھنے کی وجہ کیا ہے؟ ان کیسز کے پیچھے والدین کی عدم توجہ ہے یا انٹرنیٹ کا بے دریغ استعمال۔۔اس کی اصل وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم نے اپنے دین اپنے طرز زندگی کو بھلا دیا ہے نہ ہمیں لباس میں ستر کے اصولوں سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی نا محرموں سے ملنے جلنے پر کوئی اعتراض۔۔۔ ہم اس دوڑ میں نجانے کیوں خود کو بے لگام گھوڑا بنا بیٹھے ہیں۔۔۔یہ سوچے بغیر کہ دوڑ میں حصہ لینے کے لئے لگام کا ہونا لازم ہے اور جس نے لگام کو چھوڑا وہ جیت کر بھی ہار جائے گا لہذا اپنی لگام یعنی اپنے دین کو لبادہ بنالیں۔اور اپنے اوپر اس کی قائم کردہ حدود کو نافذ کریں کیونکہ اسی میں فلاح ہے۔۔۔۔