موت

میں موت کے سرہانے پر ہوں

عزرائیل میری روح پر قبضہ کرنے کے لیے پہنچ چکا ہے…

 

نامہ اعمال خالی نظر آرہا ہے

موت کی سختی میرے بدن کو کرچی کرچی کر رہی ہے

 

موت کی شدت میرے پر قیامت کی طرح برس رہی ہے

عزرائیل مقرر وقت پر میرے سرہانے آ کھڑا ہوا ہے

 

گناہوں کے بوجھ تلے دب رہی ہوں…

اس وقت وہ ماں جو میرے دل کی ہر ایک کیفیت کو بھانپ لیتی تھی

 

مجھے اس طرح تڑپتے دیھکتے ہوئے بھی کیوں خاموش ہے؟؟

وہ باپ جو مجھ پر قربان ہوتا تھا آج کیوں مجھے بے سہارا چھوڑ رہا ہے

 

آج کیوں نہیں میری جگہ اپنے آپ کو قربان نہیں کر رہا ؟؟

جہنم میری آنکھوں کے سامنے ہیں

 

جہنم کے شعلوں بھڑک بھڑک کر میرا انتظار کر رہے ہیں

جہنم کی وحشت مجھے تڑپا رہی ہے

 

رب کا بلاوا اور جہنم میں قیام…

کیا ہوگا اس وقت جب جہنم  بنے گی میری میزبان

 

روح قبض کی جارہی ہے….

آنکھوں سے خون جاری ہے

 

شاید لوگ میری اس حالت کو دیکھتے ہوئے میرے جہنمی ہونے کا اعلان کر رہے ہوں گئے

کیا رسوائی ہے یا رب؟؟ لوگوں کے سامنے ذلیل تو نہ کر

 

گناہ کرتے ہوئے بے شک میں نے عار محسوس نہیں کی

مجھے ایک بار مہلت دے! میں دنیا کو اپنی اس موت کی سختی کا احساس دلاؤں

 

اور تیری خاطر اپنے نفس کو قربان کروں

یا رب! میں تجھ سے مہلت مانگتی ہوں

 

اُس وقت رب کیا کہے گا…..

جب وہ نفی میں جواب دے گا

 

اس وقت میرا کیا ہوگا؟؟؟

جب وہ فیصلہ سنائے گا

 

اس وقت مجھے کیوں احساس ہو گا…

جب کہ پوری زندگی رب کی نافرمانی کرتے ہوئے گزار دی تھی

 

پھر رب سے مزید مہلت کیسے مل سکتی ہے؟

جب رب ساری زندگی مہلت دیتا آیا تھا

 

کہ اے بندی! سدھر جا, باز آ جا

جہنم اب جب ایندھن ہے  تو رب سے کس منہ سے فریاد کر رہی ہوں

 

دنیا سے کھیلنا, آخرت سے کھیلنا تھا

یقینا پھر تو رسوائی کا مزہ چکھنا تھا