ممتا نیکی اور محبت کا ملاپ

ہمارے جاننے والوں میں ایک ماں ایسی گزری جنکی میں فین ہوں واقعی “محبت اور ایثار کا کامل نمونہ” چھ بیٹیاں اور تین بیٹے ۔ سیدھی سادی اور بھولی بھالی عورت ہمیشہ بچوں کے کاموں میں مگن۔ ایک بیٹا بچپن ہی میں بس میں ہنگاموں کے دوران جل کر مر گیا ۔ بڑا صدمہ !! اللہ اکبر! کیسے سہا ہوگا میں نے صرف سنا تھا ۔ بڑی بیٹی دل کی مریضہ تھی دو بچوں کو چھوڑ کر چل بسی ۔ ماں لئے لئے پھرتی تھی علاج کیلئے ، دم درود کیلئے کافی کوششیں کیں مگر اللہ کو یہی منظور تھا ۔ بچوں کو جیسے تیسے پالا پھر بچوں کے باپ کی بھی شادی کروادی تا کہ وہ اپنی زندگی آسانی سے گزار سکیں دیگر بیٹیوں کی بھی شادیاں کیں، چوتھے نمبر کی ایک بیٹی تین چھوٹے بیٹوں اور ایک سب سے ننھی بیٹی کو چھوڑ کر اچانک ہارٹ اٹیک کا شکار ہو گئی ۔ کچھ دن نانی نے بچوں کو ساتھ رکھا پھر داماد کی دوسری شادی کروادی تا کہ بچے کھاتے پیتے رہیں ۔ اللہ کی شان نانی نے ہر طرح سے گھر بسا رکھنے کی کوشش کی مگر بے سود! وہ نئی ماں بچوں کو نہ سنبھال سکی اور چلی گئی بچے پھر رل گئے ۔ ممتا کی ماری نانی نے ایک مرتبہ پھر اس داماد کی شادی کروادی ۔ ظاہر ہے اسکی اتنی جواں لڑکیاں اور بڑے چھوٹے بیٹے تھے وہ کیسے اپنے نواسیوں کو ساتھ رکھ سکتی تھی ۔ کھلانا پلانا پکا کر دینا مالی امداد ہر طرح سے سپورٹ کیا ۔ اللہ ایسے ہی لوگوں کی قدر کرتا ہے جو دوسروں کی قدر کرتے ہیں قصہ مختصر یہ نئی ماں بہت نیک صفت خا تون تھیں ۔ تمام بچوں کو پیار سے پالا پوسا مناسب پڑھا لکھا کر وقت پر سب کی شادیاں تک کردیں ۔ وقت تو پر لگا کر اڑ گیا مگر کرنے والے کا کام اسے ہمیشہ کھلا کھلا رکھتا ہے ۔ اسی دوران نانی نے اپنی دونوں بیٹیوں کی شادیاں بھی کردیں اور خود بیوہ ہو گئی ۔ بچوں نے خاص کر بڑے بیٹے نے جو اس وقت بمشکل 18, 19 سال کا تھا، بڑی سمجھداری سے گھر سنبھالا ۔ اپنی دوچھوٹی بہنوں کی شادیا ں کیں اور خود اپنی شادی کی ماں کو سبحان اللہ میں نے کبھی شکایت کرتے نہ دیکھا اگر بچیوں کے سسرالیوں کے چھوٹے موٹے جھگڑے الجھتے چلتے رہے سلجھتے رہے ۔ مگر ایسی محنتی اور صابر ماں کی بہو بھی ویسی ہی کھلے دل کی نکلی چار پانچ بچوں کی مطلب پوتا پوتیوں کی خوشیاں دیکھنے کے بعد وہ بھی ایک رات اچانک ہارٹ اٹیک کا شکار ہو کر چل بسی جس کا مجھے بے حد افسوس رہا ۔ صابر بہو کا نام بھی صابرہ اور کام بھی ویسا ہی پھر ایک دن وہ آیا جب سب سے چھوٹے دیور یعنی چھوٹے بیٹے کی شادی ہوئی اور جب میں شادی میں گئی تو ماشاء اللہ سب لوگوں کو انکے بچوں کو جو چھوٹے چھوٹے تھے دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ کس طرح وہ ماموں کے گھر آتے رہتے خوشی غمی میں یکجا ہوتے ہیں ۔ پھر ابھی چند سال پہلے نانی کے کسی نواسے کی شادی میں جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں میں نے وہ حسین منظر دیکھا کہ تین بھابیاں اور اکلوتی بہن حسینہ بیٹھی تھی اور تعارف کروایا کہ یہ میری امی ہیں جنہیں مجھے دیکھنے کا ملنے کا شو ق تھا اور تین بھابیاں ہیں جبکہ حسینہ کی شادی کو ابھی دوہفتے ہوئے ہیں اور وہ بہت خوش تھی جبکہ باقی خالائوں کے بچے اگرچہ بڑے ہیں مگر ابھی شادیاں نہیں ہوئیں اور وہ تین شادیوں والے داماد سب ذمہ داریوں سے فارغ ہو کر ماشاء اللہ عزت احترام سے شادی میں بڑھ بڑھ کر کام کررہے تھے ۔ دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ ایک ماں اور ایک نانی ماں گویا ایک ممتا اور اسکی محبت ، نیکی کہ اپنی بچی کے جانے کے بعد بھی داماد کو بیٹا سمجھا ایک بار نہیں تین بار اسکا گھر بسایا ! کتنوں کی سنی مگر بچوں (نواسہ نواسیوں ) کی خاطر اتنی محبت اور محنت سے جو نیک کام کیاتو اللہ نے اس داماد کو اتنا نوازا کہ وہ سب سے پہلے اپنے فرائض سے نہ صرف فارغ ہوگیا بلکہ سب کی نظروں میں مزید معزز بن گیا ۔ مجھے بچپن میں پڑھا وہ شعر یاد آگیا کہ

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

مجھے آج تک یاد ہے کہ کس طرح وہ بالکل اپنے سگے نواسے نواسیوں یا پوتے پوتیوں کی طرح ان بچوں کو رکھتی تھی اور کس طرح اپنے داماد کو کھانے پکا کر بھجوانا دکھ درد میں ساتھ دینا، لینا دینا کرتی تھی وہ بھی خوشی خوشی ہمیشہ مسکراتی ہوئی کبھی ماتھے پر بل نہیں جبکہ تیسری ماں کا کردار قابل فخر ہے جبکہ آج میں دیکھتی ہوں ہر بندہ ماشا ء اللہ سب کچھ ہوتے ہوئے ذرا ذرا سی بات سے پریشان بلکہ پورے گھر کو ٹینشن دیتے ہیں اور مسلسل دیتے ہیں انہیں نہ صبر ہے نہ احساس نہ ذمہ داری کا پاس نہ ہی بڑوں کی عمروں، کمزوریوں اور ہاتھ سے نکلے جانے کی فکر ! بلکہ کہتے ہیں کہ

چین ایک پل نہیں چین ایک پل نہیں

 اور کوئی حل نہیں ! ! !

میں کہتی ہوں سوچتی ہوں اپنے ماں باپ کو اپنی ماں کو جسے میں مثالی ماں کہتی ہوں کتنا بڑا حوصلہ کتنا بڑا دل تھا کبھی کوئی گلہ نہیں کوئی طلب نہیں کوئی شکوہ نہیں بلکہ دوسروں کی ہی فکر ان فکر اور خوشی میں خوشی ، ہر وقت ہر کسی کو سکھ پہنچانے والی وہ ماں کیسے آرام سے بنا کسی کو تکلیف دئیے آخری لمحات تک خوشیوں سے کام کرتے ہوئے یوں دنیا سے چلی گئی کہ رہتی دنیا تک ایک درس محبت و احترام و اکرام دے گئی ، آداب زندگی سمجھا گئی ، مقصد زندگی سجھاگئی کہ معاشرے کی بنیادی اکائی اگر اتنی مضبوط اور صابر ہو تو وہ پھر معاشرہ کیوں نہ مستحکم ہوگا ؟ آج انہیں گزرے پندرہ سولہ سال ہو گئے ہیں مگر ان کے خاندان کا ہر فرد مثالی ہے اسی طرح اپنے گھر بار کو لیکر سکون اور راحت سے معاشرے کو سجائے ہوئے ہے اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے اور ان کی اولادوں کو اور مجھ سمیت ہم سب کی نسلوں کو ان جیسا قدر دان محبت ، خلوص اور محنت کا ایسا پیکر بنائے کہ یہی مستحکم خاندان اور مستحکم پاکستان بنے۔ (آمین)