اب کے مار

ایک غریب آدمی کی کسی امیر زادہ سے لڑائی ہو گئی تو امیر کے بچے نے غریب کو پیٹنا شروع کردیا۔اب غریب آدمی کچھ کر توسکتا نہیں تھا اس لئے اس نے پوچھا کہ کیا تم مجھے مارنے میں سنجیدہ ہو۔تو اس نے جواب دیا کہ ہاں میں تمہیں سنجیدگی سے ہی پیٹ رہا ہوں ،تو غریب کے بچے نے جواب دیا کہ میں بھی کہوں کہ تمہارا میرا مذاق تو ہے نہیں تو پھر تم مجھے کیوں مار رہے ہوں؟

حکومت وقت نے عوام کے ساتھ کچھ ایسا ہی مذاق سجا رکھا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ،اداروں کی ناقص کارکردگی اور غیر منظم طریقہ کار اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت انہیں کنٹرول کرنے سے قاصر ہے۔لیکن شام میں منعقد ہونے والے ٹاک شوز میں جب کبھی بھی حکومتی نمائندے سے پوچھا جائے کہ ملک میں مہنگائی کی وجہ کیا ہے؟تو وہ سب اس بات کو ماننے کو تیار ہیں کہ ہاں مہنگائی ضرور ہوئی ہے لیکن اس کی ذمہ دارسابق حکومت ہے کیونکہ وہ ہمارے لئے ایسے مسائل پیدا کر گئی تھی کہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ کرتے۔بات درست ہے کیونکہ جو بھی حکومت آتی ہے اس کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ سابق حکومت کی غلط حکمت عملی سے ہمیں ایسا کرنا پڑا۔بالکل کریں کیونکہ عوام تو ہر دور میں ہر حکومت کے ساتھ تعاون کرتے آئے ہیں۔یہ صرف حکومتیں ہی ہیں جو عوام پر مہنگائی کے جن کو ایسے بے لگام کر کے چھوڑ دیتے ہیں کہ حکومتی مدت پوری ہونے کے باوجود یہ قابو میں نہیں آتا۔

اب اڑھائی سال سے زائد کا عرصہ ہو چلا ہے اگر حکومتی نمائندوں سے پوچھا جائے تو ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں اور اس کوشش میں دو اشیا ہی شامل ہوتی ہیں کہ جناب ہم چینی اور گندم باہر سے منگوا رہے ہیں،بہت اچھی بات ہے اگر آپ نے مہنگے داموں چینی اور آٹا درآمد کر کے حکومتی سبسڈی ہی دینی ہے تو پھر ملک میں موجود کاروباری حضرات کو سہولیات کیوں فراہم نہیں کرد یتے اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر ریاست مدینہ کے تصور کو ذرا سامنے رکھیے اور پھر نکل جائیں کوچہ و بازار میں اور کریں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ احتساب۔اگر ہمت ہے تو پھر ریاست مدینہ کی مثال کو عملی شکل دینے لے لئے زیادہ نہیں تو دو چار کو ہی مہنگائی،ذخیرہ اندوزی اور من مانی قیمتیں وصول کرنے پر لٹکا دیجئے تاکہ سب کے لئے نشان عبرت ہو۔اگر حکومت وقت نے ریاست مدینہ کے کسی ایک فعل پر بھی عمل کر کے دکھا دیا تو ہم سمجھیں گے کہ ہاں آپ چاہتے ہیں کہ ملک میں ریاست مدینہ کی عملی شکل ہو۔

لیکن ایسا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔وہ اس لئے کہ اسوہ حسنہ کا تو ایک ایک پہلو ہمارے لئے مقدس و معتبر ہے بلکہ کسی ایک عمل میں شک کرنا بھی دائرہ اسلام سے خروج کا باعث ہو سکتا ہے۔اگر آپ اصحاب رسول ﷺ کے ادوار میں سے کسی ایک کے دور کے ایک عمل کو بھی عملی جامہ پہنا دیں تو جناب وزیر اعظم صاحب یقین جانئے آپ امر ہو جائیں گے۔اور ان اعمال میں سر فہرست مہنگائی کو کنٹرول اور بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے۔اور ساتھ ہی ساتھ احتساب کا شفاف عمل بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔اب آپ نے عملی ثبوت عوام کے سامنے رکھنے ہیں کہ آپ صرف ایک عمل کے لئے کتنا عمل کر رہے ہیں۔چند پناہ گاہیں بنا کر ان کو بے یارو مددگار چھوڑ دینا بھی کوئی عقل مندی کا کام نہیں ہے۔اصل کام تو اب شروع ہونا ہے کہ کیا ان پناہ گاہوں میں واقعی ضرورت مندوں کی ضرورت ہی پوری ہو رہی ہے یا وہاں بھی چند ماہ بعد سننے میں آئے گا کہ قبضہ گروپ اپنے پنجے جمائے بیٹھا ہوا ہے۔کیونکہ حضرت عمر ؓ کے دور کے بارے میں تو مشہور بات ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کا ذمہ دار بھی عمر ہوگا۔ذرا سوچئے وزیر اعظم صاحب پناہ گاہوں میں تو وہی لوگ جائیں گے جو پہلے سڑکوں پر سوتے ہیں اور در در جا کر مانگتے ہیں،بہت اچھی بات ہے کہ انہیں ایک چھت اور کھانا مہیا ہو گیا ،لیکن وہ جو کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے،وہ جو روزانہ کی بنیاد پر کماتے اور کھاتے ہیں وہ آئے روز کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کیسے کریں۔اگر کسی روز وہ مزدور بیمار پڑ جائے یا کسی عذر کی بنا پر کام پر نہ جا سکے تو اس کاخاندان کیسے وہ ایک روز بسر کرے گا۔اس بات پر بھی توجہ دی جائے۔

آپ جانتے ہیں کہ بے روزگاری کی شرع ان سے کہیں زیادہ ہے جو بنا چھت کے زندگی بسر کر رہے ہیں۔سفید پوشوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے جو سڑکوں پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں،لہذا آپ کو مہنگائی کے اس جن کو قابو کرنا ہوگا تاکہ چند فی صد نہیں بلکہ غریب کی اکثریت کو سہولیات زندگی میسر ہو سکیں۔

اس بار عوام نے تو یہ سوچ کر آپ کو منتخب کیا تھا کہ آپ کے بیانات سے کگتا تھا کہ اب قوم کی مسیحائی کرنے والا مسیحا آگیا ہے۔اب واقعی ملک میں تبدیلی آئے گی۔لیکن غریب تو اور بھی غریب ہوتا جا رہا ہے۔مہنگائی روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔وزیر اعظم صاحب آپ کا اور غریب عوام کے ساتھ کوئی مذاق کا رشتہ ہے کیا۔اگر نہیں تو پھر انہیں مارنے کی بجائے ان کے دکھ درد کا مداوا کریں۔وگرنہ تو عوام سابق حکومتوں کی طرح آپ کی حکومت کے سامنے آپ کے پروگرامز کے ہاتھوں مار کھاتے ہوئے ہنستے ہوئے کہتی رہے گی کہ جناب میرا اور آپ کا مذاق ہے کیا؟

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔