کتابیں اور اکیسوی صدی

ایک وقت تھا جب میں آٹھویں جماعت میں ہونے کے باوجود اپنی پاکٹ منی سے پیسے بچا بچا کر کتابیں، رسالے اور اخبارات منگواتی۔ یہ شوق اس وقت پروان چڑھا جب میں دوسری کلاس میں زیر تعلیم تھی۔ ماموں اور خالہ ہر مہینے ایک چھوٹا سا رنگ برنگی صفحات اور تصاویر سے مزین چند صفحوں کی کتاب اپنے اپنے لیے خریدتے تو ان کے دیکھا دیکھی میں نے بھی اپنے لیے یہ کتاب خریدنا اور پڑھنا شروع کیا۔ یہ شوق نونہال اور عمران سیریز سے ہوتے ہوئے شاعری کی کتابوں تک پہنچااور جاسوسی، خواتین اور شعاع ڈائجسٹ سے یہ سفر تاریخی ناول تک پہنچا۔ کوئی بھی کتاب شروع کرنے کی جو جلدی ہوتی تھی اتنی ہی جلدی اس کو اختتام تک پہنچانا بھی ضروری ہوجاتا۔ پھر چاہے موم بتی کی روشنی ہوتی یا چاند کی روشنی۔

 اس شوق کے بیمار صرف ہم ہی نہ تھے بلکہ کلاس فیلوز اور رشتہ دار سب ہی مبتلائے کتاب عشق تھے۔ ہم بچے تو خصوصاً اخبار میں بچوں کے صفحے کے متلاشی ہوتے اور ہر ایک کو یہ جلدی ہوتی کہ وہ یہ اخبار سب سے پہلے پڑھے۔ اسکول اور کالج میں ایک دوسرے سے کتابیں ادھار لے کر بھی پڑھنے کا چسکا لگا رہتا تھا۔ اپنے اسی شوق کے مدنظر ایک دوسرے کو تحفہ دینے کے لیے بھی کتاب ہی ہماری پہلی چوائس ہوتی تھیں۔ ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ سیکنڈ ائیر کی پارٹی کے لیے فیصلہ ہوا کہ سارے ٹیچرز کے لیے گفٹ لینا چاہیے۔ گفٹ کے لیے سب کا فیصلہ کتاب ٹھہرا۔ پیسے جمع کرنے کے بعد سارے ٹیچرز کے لیے کتابیں خریدیں۔ مگر مسئلہ اسوقت پیدا ہوا کہ اسلامیات کے ٹیچر کو اسلامی کتاب کے بجائے شاعری کی کتاب گفٹ میں دے دی اور جواب میں اس ٹیچر نے جو ہماری کلاس لی وہ الگ کہانی ہے۔۔

 کتب بینی کی اس محبت میں میری ذاتی لائبریری میں کتابوں کی کثیر تعداد جمع ہوگئی تھی۔ چھوٹے بھائی نے ان کتابوں سے اسطرح فائدہ اٹھایا کہ ان کی چھوٹی سی پبلک لائبریری بنا ڈالی۔ مگر افسوس کہ جب میں ہاسٹل میں تھی، گھر والے بدین سے کراچی شفٹ ہوئے تو کتابیں ادھر ادھر ہوگئیں جس کا مجھے زندگی بھر افسوس رہے گا۔

ادبی محفلیں تو اس وقت کی رونق ہوا کرتی تھیں۔ کسی ادیب کی نئی کتاب کی تقریب رونمائی میں بڑے بڑے دانشور، صحافی اور اسکالرز شامل ہوتے تھے اور سب کتاب پر تبصرہ اور تجزیہ کرتے اور صاحب کتاب کی حوصلہ افزائی کرتے اور ہم ٹی وی پر ایسے پروگرام دیکھ کر خوش ہوتے۔

مگر وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹیکنالوجی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔مجھے یاد ہے کہ اسکول کے زمانے میں, میں نے اخبارات کی کٹنگ سے مزین دو رجسٹر بنائے تھے۔ ایک میں مستقبل کی ایک انوکھی ایجاد موبائل کی خبر بھی تھی مگر یہ نہیں اندازہ تھا کہ یہ موبائل اتنی جلدی ہم سب کی ایکٹیوٹیز کو دیمک کی طرح چاٹ لے گا۔ اس موبائل نے جہاں کلینڈر، گھڑی، ٹارچ، ٹی وی،سینما، فوٹو البم،الارم اور کئی دوسری ضروریات زندگی کو اپنے اندر مدغم کیا وہیں کتابوں کو بھی اپنے اندر سمو لیا۔ کہیں پی ڈی ایف کی شکل میں تو کہیں ویب سائیٹس کی شکل میں۔ جہاں ایک طرف اب کتابیں پہنچ سے نزدیک ہوگئیں وہیں مطالعے سے دور ہوگئیں۔ جو کتاب پہلے طلباء کو ایک ایک روپے جمع کرکے خریدنی پڑتی تھیں اب پانچ منٹ کے سرچ کے بعد ہماری الیکٹرانک لائبریری کا حصہ بن جاتی ہیں مگر انہیں کھول کر پڑھنا بمشکل ہی نصیب ہو پاتا ہے۔ اکثر اوقات تو یہ کتابیں جگہ کی کمی کے باعث بن فولڈر کی نذر ہوجاتی ہیں یہی سوچ کر کہ ضرورت پڑنے پر دوبارہ ڈاؤن لوڈ کر لیں گے۔

اسی طرح اخبار کا مطالعہ بھی لطف کا ذریعہ ہوتا تھا۔ گھر میں کبھی کبھار ایک وقت کے کھانے کا ناغہ ہو سکتا تھا مگر اخبار کا ناغہ گوارا نہ تھا اور اخبار کی ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی خبر کا پڑھنا تو جیسے فرائض منصبی میں شامل تھا۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی نے اخبارات کو بھی پی ڈی ایف کی شکل میں نگل لیا۔ ہمیں ہر جگہ موبائل کی دکانیں ملیں گی اور ان میں لوگوں کا رش اس بات کی دلیل ہے کہ یہ زہر لوگوں کے دل و دماغ میں بری طرح سرائیت کرگیا ہے۔ مگر وہیں دوسری جانب کتابوں کی دکانیں تو اب نظر ہی نہیں آتی۔ کتابوں کی بڑی دکانیں جو علاقے کی جان ہوتی تھیں اب وہاں کوئی اور قابل منافع اشیاء کی دکانوں نے لے لی ہیں۔ لائبریری جو اعلی ادب کا خزینہ کہلاتی تھیں، وہاں لوگوں کا رحجان بالکل بھی نظر نہیں آتا۔ اگر کہیں کہیں پر لائبریریاں زندہ ہیں اور سانس لے رہی ہیں تو وہ ہیں صرف تعلیمی اداروں کے لائبریری وہ بھی طلبہ کی مجبوری ہیں ورنہ تو بڑے بڑے شعرا اور ادباء کی کتابیں تو اکثر گردو غبار اور جالوں کی نذر ہوجاتی ہیں۔

 کہا جاتا ہے کہ یہ صدی کتاب بینوں کے لیے آخری صدی ہوگی کیونکہ موجودہ دور میں کتاب بینی کہیں کہیں زندہ ہےِ ایک موہوم سی امید کے ساتھ۔ لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ واقعی یہ صدی کہیں کتاب بینی کے لیے آخری صدی نہ ہو۔ جہاں ایک جانب لیپ ٹاپ اور موبائل نے اسے گھائل کردیا ہے وہیں ہمارے نظام تعلیم پر بھی اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمارے نظام تعلیم میں بچوں پر بھاری بستے کا جو اضافی بوجھ لادا جاتا ہے۔ وہ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پہاڑ نما بستے میں بہت سی کتابیں غیر متعلقہ ہوتی ہیں جن کو پورے سال میں ایک بار بھی کھلوانے کی نوبت نہیں آتی۔ غیر ضروری کتابوں کے انبار اور وقت سے پہلے موبائل کے استعمال سے بچے کتابوں کے قریب آنے کے بجائے ان سے دور ہوجاتے ہیں۔

 اس کے علاوہ غم دوراں اور غم روزگار کے چکروں میں وقت کی کمی بھی ایک اہم وجہ ہے کتب بینی سے دور ہونے کی۔ اسکے علاوہ مہنگائی نے بھی ایک حد تک اس مشغلے کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ ایک مہنگا شوق بن چکا ہے اس لیے وہ کتابیں خریدنے کے بجائے پی ڈی ایف سے پڑھنا زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں۔

 موبائل کے تعلیمی حوالے سے کئی فائدے ہونے کے باوجود کتب بینی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ جیسا کہ ولیئم سو مرسٹ نے کہا ہے کہ ’’زندگی کی بدصورتیوں سے پناہ لینے کا طریقہ کتب بینی کی عادت ہے‘‘۔

 کتابوں سے دوستی رکھنے والا کبھی بھی تنہا نہیں ہوتا اور اسے کسی دوست کی ضرورت بھی کم ہی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ کتابیں انسان کی شخصیت کو نکھارنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

 اب وقت آگیا ہے کہ اب ہم سب کو مل کر ادب کو مرنے سے بچانا ہوگا اور کتابوں کو شیلف کی زینت بنانے کے علاوہ پڑھنا بھی ہو گا۔اس کے لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں اخبارات کا مطالعہ اور اس پر بحث و مباحثہ کو عادت بنائیں۔ گھر میں کتابوں کی دستیابی اور مطالعہ کو اپنی روزمرہ کا معمول بنائیں۔ دن میں کم سے کم کچھ وقت کتب بینی کے لیے مختص کریں۔ لازم نہیں ہے کہ ہم کتاب پڑھنے کے لیے لائبریری جائیں بلکہ اپنے دلوں کو ان کتابوں کی لائبریری بنائیں۔ اور بچوں کو ان معمولات میں اپنے ساتھ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور ان میں شوق مطالعہ کو فروغ دینے کے لیے کتانوں کے تحائف بھی دیں۔ اس کے ساتھ ہی سکول اور جامعات کے لیول پر ایسے مقابلے منعقد کرنے چاہئیں جن میں کتب بینی کو فروغ دیا جاسکے۔ ساتھ ساتھ طلباء کی تحریر ی رجحان کو فروغ دینا چاہیے۔ لوگوں میں بین القوامی ادب کو متعارف کرانے کے لیے ان کی معیاری کتابوں کا مقامی زبانوں میں ترجمہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ رعایتی قیمت میں کتابوں کے میلے منعقد کرانے سے بھی کسی حد تک اس شوق کو تقویت دی جاسکتی ہے۔