غیر منظم منصوبہ بندیاں!

ہم جب عمر کی منزلیں طے کرتے آگے بڑھ رہے تھے تو ہمیں حکومت کے پانچ سالہ منصوبہ کی واشگاف آوازیں گونجتی سنائی دیتی تھیں (واشگاف اسلئے کہ سوائے سرکاری ذرائع ابلاغ کے کوئی دوسرا ذریعہ خبر کا تھا ہی نہیں)، لیکن افسوس کہ کوئی بھی حکومت اپنے طے شدہ پانچ سال پورے نہیں کرپاتی تھی کہ وہ منصوبوں کے مکمل ہونے کا اعلان کرے، اسطرح یہ منصوبے کاغذوں کے ڈھیر میں کہیں کسی سرکاری ذخیرہ خانہ دستاویزات (ریکارڈ روم)کی زینت بنے ہوئے ہونگے اورکیا معلوم کسی گم نام آگ کی نظر ہوکر ابتک خاکستر ہوچکے ہوں۔ اسکے بعد نام نہاد جمہوری حکومتوں نے کسی بھی منصوبے کی حد کا تعین کرنا بدشگونی سمجھ لیا اور اعلانیہ منصوبہ سازی کا سلسلہ ترک کردیاگیا(ایسا نہیں کہ منصوبے نہیں بن رہے ضرورت اور فنڈز کی دستیابی کی بنیاد پر منصوبے مرتب کئے جاتے ہیں)جوکہ انکے لئے فائدہ مند ثابت ہوا، جزوی وقت دینے کے بعد مکمل نا ہونے کی صورت میں وفاق صوبوں اور صوبے وفاق کو موردِ الزام ٹہراتے رہتے ہیں اور عوام ہمیشہ کی طرح ان منصوبوں کی ادھیڑ بن میں پریشانی کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔

منصوبہ سازی جہاں ایک فن ہے وہیں یہ کسی خداداد صلاحیت کا بھی نام ہے۔ منصوبہ سازی دراصل کسی مقصد کے حصول کیلئے تیار کی جانے والی حکمت عملی کا نام ہے۔ کسی بھی منصوبہ کے اعلان سے قبل اس کیلئے وسائل کی دستیابی، فنی محارت اور وہ تمام ذرائع جن کی ضرورت کسی بھی وقت پڑسکتی ہے حاصل کر لئے جائیں۔بصورت دیگر منصوبہ کسی ایک چھوٹی سی سہولت کی عدم دستیابی کے سبب ناصرف مشکلات کی نظر ہوجاتا ہے بلکہ طے شدہ دورانیہ بڑھ جانے کی وجہ سے تخمینہ شدہ رقم پر بھی خاطر خواہ اثر انداز ہوتا ہے۔جدت سے ہم آہنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبہ سازی اور حکمت عملی کی باقاعدہ پیشہ ورانہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور تقریباً ہر ادارہ ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ ان مخصوص امور پر دنیا جہان کے ماہرین انگنت کتابیں تحریر کر چکے ہیں اور یقینا دنیا کے ترقی پذیر ممالک نے ان سے فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ یہاں ایک اختلاف بھی دیکھائی دیتا ہے اور وہ یہ کہ عملی کام میں تحریری کام میں بڑا فرق ہوتا ہے لیکن ہم اس کی نفی کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ لکھا ہوا ایک رہنماء اصول ہوتا ہے اور اس لکھے ہوئے کو بھلے ہی آپ بلکل ویسا نا کریں لیکن کام کرتے وقت آپ اس لکھے ہوئے کہ دائیں بائیں ہی پائے جائینگے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اگر صرف عملی کام سے ہی کام چلتا ہوتا تو اللہ رب العزت نے آسمانی کتابیں کیوں اتاریں کیوں کہ اگر کہیں عملی کام سرانجام دیتے ہوئے کہیں بھٹکنے لگو یا کسی مشکل کا شکار ہوجاؤ تو اس لکھی ہوئی سند سے مدد لے کر آگے کام جاری کرو۔

کسی بھی منصوبے کی کامیابی میں سب سے پہلے منصوبہ سازوں کی نیت کا عمل دخل ہوتا ہے، کیا وہ منصوبہ جس کی داغ بیل انہوں نے ڈالی ہے اسے مکمل کرنا چاہتے ہیں یا پھر کسی خاص مقصد کے حصول کیلئے فقط اعلان کی حد تک ہی رکھنا چاہتے ہیں۔بر صغیر بلخصوص پاکستان سے تعلق ہونے کی باعث ہم یہ بات اس لئے لکھ رہے ہیں کہ یہاں سیاست دان اپنی سیاست کی دکان چمکانے کیلئے ایسے ایسے منصوبوں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کی شائد انہیں الف ب بھی نہیں پتہ ہوتی ہوگی، بعض جگہ تو وہ عوام کو ان منصوبوں کے خواب بھی دیکھا دیتے ہیں جن کی عوام کو یا اس مخصوص علاقے کو اس منصوبے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم پاکستان کی بات نہیں کرتے بلکہ صرف شہر قائد کراچی کی بات کر لیتے ہیں جو تقریباً گزشتہ دس سالوں سے کچرے کا ڈھیر بنتا چلا گیا ہے بشمول نکاسی آب کا نظام درھم برھم ہوچکا ہے جس کا ثبوت حالیہ بارشوں میں پوری دنیا نے دیکھا ہے (یہاں اس بات پر پردہ پڑا ہوا ہے کہ کتنے ہی ایسے علاقے تھے جو بارشوں کے دنوں میں کسی کچے کے علاقے کی شکل اختیار کئے ہوئے تھے جہاں زندگی مفلوج ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی تھی اور کہیں کوئی پرسان حال نہیں تھا)،کراچی والوں کیلئے ذرائع آمد ورفت کا کوئی باقاعدہ سرکاری نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے شہر میں چھوٹی گاڑیوں کا ہجوم ہے اور جنکو چلانے والوں کی اکثریت بغیر کسی سند (لائسنس) کے اہم ترین سڑکوں پر گاڑیاں چلا رہے ہیں جس کی وجہ سے حادثات معمول بن چکے ہیں۔ جس طرح سے پاکستان کے مختلف علاقوں سے افراد نے روزگار کی تلاش میں کراچی شہر کا رخ کیا ہے، شہر کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے وسائل کی کمی کا بحران کی حد تک سامنا کرنا پڑا ہے (اگر کراچی کو تباہ کرنے کی سازش ہے تو پھر بہت اچھی منصوبہ بندی کی گئی)۔ ذرائع آمد و رفت کیلئے کراچی کیلئے ایک منصوبہ تقریباً تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، جو کہ ایسا دیکھائی دے رہا ہے کہ کہیں بننے سے پہلے ہی کی گئی تعمیرات کھنڈر نا بن جائیں۔ یہ سہولت وفاق اور صوبے کی لڑائی کی وجہ سے تاحال انتہائی سست روی کا شکار ہے۔

ہم نے بڑے بڑے بازار بنائے ہوئے ہیں لیکن ان بازاروں کیساتھ سڑکوں پر پتھارے کیوں لگائے جاتے ہیں، ہمیں سڑکوں پر غلط سمت میں گاڑیاں کیوں چلانی پڑتی ہیں، ہم عارضی طور پر رمضانوں میں کیوں مسلمان ہونے کا روپ دھارتے ہیں، گاڑیوں کو کھڑی کرنے کی کوئی باقاعدہ جگہ کیوں نہیں ہوتی ہمیں کیوں اپنی گاڑی غلط جگہ کھڑی کرنے کی اجازت چند روپوں میں مل جاتی ہے، سرکاری ہسپتال کے عملے کا رویہ نجی ہسپتال کے عملے سے مختلف کیوں ہے جبکہ دونوں ایک جیسا کام سرانجام دے رہے ہیں اور اسطرح کے بے تحاشہ ایسے امور جو مکمل بدنظمی کا شکار ہیں بغیر کسی منصوبہ بندی کے چلے جا رہے ہیں جن کا انجام سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ہے (خاکم بدہن)۔

پاکستان میں منصوبہ بندی کا ذکر آتا ہے تو صرف خاندانی منصوبہ بندی پرتوجہ دی جاتی رہی ہے جس کے لئے بین الاقوامی امداد کے طفیل اداروں نے کام کیا اور کیا کام کیا معلوم نہیں کیونکہ آبادی تو اسی زور و شور سے بڑھتی ہی چلی گئی۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم اچھے منصوبہ ساز واقع نہیں ہوئے ہیں، اگر کوئی منصوبہ بنایا بھی ہے تو اس پر قائم نہیں رہ سکے جسکی وجہ گھوم پھر کر سیاسی بنتی ہے۔ ایک بہت بڑا منصوبے کی بہت بڑی مثال کالا باغ ڈیم ہے جوکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہونے کے باوجود تاحال نہیں بن سکا ہے اور آج تک کچھ مخصوص سیاست دان اس پر سیاست کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اکثریت جذباتی منصوبہ سازہیں جو مائیک پر کھڑے ہوکر اعلان کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ ہمیں باقاعدہ منصوبہ سازوں کی ضرورت ہے جو جدید علوم سے آراستہ ہوں اور ملک و قوم کے مفاد میں بنائے جانے والے منصوبوں کی نشاندہی کریں اور انکے زمینی حقائق پر مبنی ہونے کی دلیل دیں۔ کسی کام کو کرنے کا فیصلہ کرنا اور اس حکمت عملی ترتیب دینے والے خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ انسانوں میں انفرادیت پانے والوں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ انہیں حکمت ِ عملی مرتب کرنے کی قابلیت سے قدرت نے نوازا ہوتا ہے۔ ہم اپنے اطراف میں باآسانی اس بات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ کتنے لوگ ہیں جو کسی کام کو باقاعدہ حکمت عملی کہ تحت سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یوں تو کام سب ہوجاتے ہی کچھ بغیر کسی مشکل کہ اور کچھ مشکلات سے گزر کر پایا تکمیل کو پہنچ پاتے ہیں۔ ہماری زندگیوں میں کتنے ہی ایسے منصوبے جو دل سے نکل کر زبان تک نہیں پہنچ پاتے کیوں کے ہم یہ جانتے ہیں کہ ان کے لئے وسائل تک رسائی کوئی آسان کام نہیں ہوتا لیکن ارباب اختیار ہمارے یعنی عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ جب تک ہمارے ملک میں قابلیت کواہلیت کو رشوت اور سفارش پر فوقیت نہیں ملے گی ایسے ہی ہوائی منصوبے بنتے رہینگے، ادارے کھوکھلے وہتے رہینگے اور لوگ اپنی جیبیں بھرتے رہینگے اور دوسرے ملکوں میں جاکے بستے رہینگے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔