انسانی جذبات کی قدرو منزلت اور عصر حاضر کے مذہبی رویے

حضورﷺ معاشرے کے مفلوک الحال اور بے سہارا طبقے کے دلی جذبات اور احساسات کا بے حد خیال رکھتے تھے کسی بھی طرح ان کو یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ معاشرے کا پست طبقہ ہے مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے پاس مختلف غزوات و سرایا کے موقع پر آنے والے جنگی قیدیوں میں مر و خواتین دونوں شامل ہوتے تھے ۔ان جنگی قیدیوں کو مسلمانوں کی ذاتی تحویل میں دے دیا جاتا تھا تاکہ ان کی دیکھ بھال ہوتی رہے ان جنگی قیدیوں میں کئی بے سہارا خواتین( باندیاں) بھی شامل ہوتیں ، جن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی اور موجود نہ ہوتا اگریہ باندیاں بھی اپنے کام کروانے کے لئے آپ ﷺ کی بارگاہ میں آجاتیں تو آپ ﷺ ان کے کام کر دیتے اور وہ جہاں چاہتیں اپنے ساتھ حضور ﷺ کو اپنے کام کے لئے لے جاتیں اور حضور ﷺ کبھی انکار نہ فرماتے ۔حدیث مبارکہ میں  ہے کہ اگر کوئی بے سہارا باندی جس کی ضروریات کو پورا کرنے والا کوئی نہ ہوتا ، اگر وہ آپ ﷺ کے پاس آجاتی خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوتی حضور ﷺ اس کا بھی کام کر دیتے ( مسند احمد بن حنبل )۔حضور ﷺ  ذہنی امراض کا شکار افراد کے احساسات اور جذبات کا بھی خیال رکھتے حدیث میں آتا ہے کہ ایک خاتون جو دماغی لحاظ سے غیر متوازن تھی ،وہ آقا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ حضور ﷺ آپ میرے ساتھ آئیں مجھے آپ سے کچھ کام ہے آپ اس کے ساتھ اٹھ کر چل پڑے ۔ مدینہ کی گلیوں میں اس نے جہاں چاہا وہ حضور ﷺ کو لے کر پھرتی رہی،کئی راستے گھماتی رہی اور جب تک اس کے سارے کام ختم نہیں ہو گئے ،حضور ﷺ اس دیوانی کو چھوڑ کر واپسی نہیں آئے ۔(صحیح مسلم )۔اسی طرح اعرابیوں کے حوالے سے حضرت انس ؓ فر ماتے ہیں کہ آقا ﷺ یہاں تک لوگوں کے احساسات کا خیال رکھتے کہ یعنی کئی بار ایسا ہوتا حضور ﷺ خطبہ جمعہ دے کر منبر سے نیچے اتر آئے ہوتے ،اقامت بھی ہو گئی ہوتی تو اسی اثنا میں کوئی حاجت مند حاضر ہوا اور اس  نے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور آپ ﷺ سے دیر تک بات کرتا رہا جب تک وہ بات ختم نہ کر لیتا تب تک آپ ﷺ کھڑے ہو کر اس کی بات سنتے رہتے ۔( مسند ابی یعلی )( جہاں تک اس مسئلے کے شرعی پہلو کا تعلق ہے تو یہ عمل حضور ﷺ کے خصائص میں سے ہے ،حضور ﷺ کے عمل سے نماز میں تاخیر نہیں ہوتی )اعرابی اور دیہاتی لوگوں کو یوں آپ ﷺ کو سر راہ روک لینے کی وجہ یہ تھی کہ مختلف سطح کے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے تھے ، جن میں اعرابی ،دیہاتی اور بدو بھی تھے ۔یہ لوگ دور دراز کے علاقوں سے آتے تھے ، ان کی تعلیم تربیت ابھی نہیں ہوئی تھی ، اپنے آپ کو سنوارنے کے مواقع ابھی ان لوگوں کو نہیں میسر نہیں آئے تھے ،مجلس میں حاضری کے طریقے معلوم نہیں تھے ، گفتگو آداب معلوم نہیں تھے ، بس پیغام ملا اور کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے ۔حضور ﷺ کی صحبت سے باقاعدہ تربیت کے مواقع ابھی انہیں میسر نہیں آئے تھے تو اپنے مزاج کے مطابق حضور ﷺ سے بات کر لیتے مگر آپ ﷺ ہر سطح کے آنے والے لوگوں کے مزاج ، کلچر اور عادات کا خیال رکھتے کہ کہیں کسی چیز سے ان کی دل شکنی نہ ہو لہذا آپ ان کے مزاج کے مطابق ان کا احترام کرتے ۔اس سے بھی بڑھ کا عجیب تر طرز عمل کے بارے میں حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ :ایک بار میں آپ ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا اور آپ ﷺ نے اپنے اوپر نجران کی بنی ہوئی چادر لے رکھی تھی جو سخت کھردری تھی ۔اچانک پیچھے سے ایک اعرابی آیااور اس نے آپ کو روکنا چاہا اور چادر کو پکڑ کر زور سے کھینچا ،جس کی وجہ سے آپ کی گردن مبارک پر رگڑ آگئی اور وہ سرخ ہوگئی ۔آپ پیچھے متوجہ ہوئے اور پوچھا : کیا معاملہ ہے ؟ وہ کہتا ہے : اللہ کا دیا ہوا مال جو آپ ﷺ کے پاس ہے ،اس میں سے مجھے دیں ،میری ضرورت پوری کریں ۔آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دیئے اور اس نے جو مانگا تھا ، اسے عطا کرنے کا حکم فرمایا ۔ ( صحیح بخاری)

حضرت ابو ھریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک روز ہم آقا ﷺ کے ساتھ مسجد سے باہر نکل رہے تھے کہ مسجد کے اندر ہی دیہات سے آئے ہوئے آدمی نے آپ ﷺ کو روکنے اور اپنی بات کہنے کے لئے آپ ﷺ کی چادر کو کھینچا ۔یہ دیہاتی لوگ ایک دوسرے کو اپنی طر ف متوجہ کرنے کے لئے اس طرح کیا کرتے تھے ۔اس نے اس زور سے آپ ﷺ کی چادر کھینچی کہ آپ ﷺ کی گردن مبارک سرخ ہو گئی ۔اس شخص نے کہا  :یا محمد ! میں دو اونٹ لایا ہوں ، میری کچھ ضروریات ہیں ، ان اونٹوں کو ہماری کھانے پینے کی ضروریات سے بھر دیں اور جو کچھ آپ مجھے دیں گے ،یہ نہ اپنے مال سے دے رہے ہیں اور نہ اپنے باپ کے مال سے دے رہے ہیں ۔یہ اللہ کا مال ہے ۔یہ طریقہ گفتگو ان کا کلچر تھا کہ وہ آپس میں بھی اس انداز میں بات کیا کرتے تھے ۔حضور ﷺ نے اس کی بات سنی ، مگر اس کے اس طرز تخاطب پر ناراضگی کا اظہار نہ  فر مایا بلکہ اس کے دونوں اونٹوں کو کھجور اور جو سے بھر دیا ۔ (سنن نسائی )۔

قاضی عیاض الشفاء میں آگے لکھتے ہیں کہ  جب اس کے اونٹ مال سے بھر دیئے تو پھر آپ ﷺ نے اس سے پوچھا : جو تو نے میرے ساتھ کیا ہے کہ میری چادر کھینچ کر میری گردن سرخ کردی کیا میں اب تمہارے ساتھ بھی ایسا کروں ؟اس نے کہا نہیں میرے ساتھ ایسا نہ کریں۔ فر مایا : تم نے میرے ساتھ کیا ہے تو میں تمہارے ساتھ کیوں نہ کروں ؟اس نے جواب دیا :میں نے جو آپ ﷺ کے ساتھ زیادتی کی ہے ، آپ ﷺ مجھ سے اس کا بدلہ نہ لیں کیونکہ آپ ﷺ زیادتی کا جواب زیادتی سے دینے والے نہیں ہیں ۔ حضور ﷺ اس بات کو سن کر ہنس پڑے ۔( قاضی عیاض ، الشفاء)

ہمیں چاہیے کہ ہم آپ ﷺ کی سیرت طیبہ اور آپ کے اخلاق مبارکہ کے گوشے ممکنہ حد تک اپنی زندگی میں داخل کریں ۔جب تک آقا ﷺ کی متا بعت کا اثر ہماری زندگیوں ، اخلاق ،عادات ، طور طریقے اور برتاؤ میں نظر نہیں آتا تو ہمارے سارے دعوے ناقص ہیں ۔ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا اور نفرتوں کو نکال کر اس جگہ کو محبتوں سے پر کرنا ہوگا ۔غیض و غضب کی جگہ شفقت و نرمی کو لانا ہوگا ۔دوسروں کو للکارنا،ان کی تحقیر و تذلیل کے طرز عمل کو ترک کر کے ہر ایک کو احترام دینا ہوگا ۔اختلاف رائے کا بھی احترام کرنا ہو گا اختلاف رائے کا جواب گالی یا گولی کی بجائے دلیل کی قوت سے دینا ہوگا افسوس یہ کہ بندے ہو کر خدا بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہم جبرََا اپنی بات دوسروں سے کیوں منوانا چاہتے ہیں ۔۔؟فتووں کے تیر چلا کر ہم انسانی جذبات کو قتل عام کیوں کرتے ہیں ۔۔۔؟اللہ کا حکم تو یہ وما علینا الا ّ البلغ المبین‘‘میرے حبیب آپ بس میری بات ان تک پہنچا دیں ، ماننانہ ماننا ان کا کام ہے ۔منوانا آپ کی ذمہ داری نہیں یہ مجھ پہ چھوڑ دیں ۔لہذا  آج ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے رویے ّ بدلیں تاکہ سیرت مصفی ﷺ کی جھلک ہمارے  انداز سے ، کردار سے دکھائی دے ۔