سفید پوش گداگری کا بڑھتا رجحان

ایک وہ زمانہ تھا جب کسی سے کچھ مانگتے ہوئے شرم آتی تھی ـ بہت مجبوری کی حالت میں اگر ہاتھ پھیلانا پڑ بھی جاتا تو آنکھیں زمین پر گڑھی ہوتی ‘ سر جھکا ہوتا اور آواز لڑکھڑاتی محسوس ہوتی تھی ـ دل چاہتا کہ زمین پھٹے اور اس میں دفن ہو جائیں ـ کسی سے کچھ مانگنے سے پہلے سو بار سوچتے تھے اکژ اوقات اپنا جائز حق مانگنےکے لئے بھی سوچتے تھے کہ سوال اٹھائیں کیسے ؟
لیکن اب وقت بہت بدل گیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے سوچنے سمجھنے کے طور طریقے اور روایات بھی بدل گئ ہیں ـ اب لحاظ و شرم ‘ احساس ناپید ہو گئے ہیں اور لوگ خود سر و بدتمیز ہوتے جا رہے ہیں ـ کسی کے منہ پر اس کو سنانے کے بعد کہا جاتا ہے کہ میں صاف گو ہوں اس لئے دل میں جو آیا بول دیا ـ عزت و احترام دینے کا رواج اب ختم ہوتا جا رہا ہے ـ
دوسرے لفظوں میں خودداری ختم ہوتی جا رہی ہے اب ہم ہاتھ پھیلانے یا مانگنے میں عار محسوس نہیں کرتے بلکہ اپنا اولین حق سمجھتے ہیں ـ
پہلے ایک وقت تھا کہ اکا دکا لوگ جو صحیح معنوں میں معزور اور محتاج ہوتے تھے کہیں گلی کوچے کے کونے میں یا سڑک کے کنارے سر جھکائے بیٹھے نظر آتے تھے لیکن اب ہر طرف چاہے کوئی سگنل ہو’ ٹاور ہو ‘بازار ہو یا دکان ہو غرض کوئی بھی کونہ ہو بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو صحت مند ہیں اور اچھا بھلا کام کر سکتے ہیں اور ان میں ایسی خواتین بھی شامل ہیں جو اپنے ناکارہ شوہروں کی ہڈحرامی سے تنگ آ کر سڑکوں پر مانگنے نکل آتی ہیں ـ شیر خوار بچوں کو گود میں اُٹھائے ان کے دودھ اور کھانے کے نام پر مانگتی ہیں ـ
اب گداگری کے بھی نئے طریقے منظرِ عام پر آ گئے ہیں جو جتنا زچ کرے گا اس کو اتنا ملے گا ـ کسی کو دکان میں سودا سلف لیتے دیکھ کر اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کے صدقے آٹا لے دو صبح سے بچوں نے کچھ نہیں کھایا چلو جو جوس لیا ہے باجی وہی لے دو اللہ تمھارے بچوں کی صحت کرے ‘ بچوں کا صدقہ کر کے ہی دے دو ـ جس ڈھٹائی سے مانگا جاتا ہے اس کی بھی داد دینی پڑے گی ـ
مانگنا اب ایک دھندہ یا کاروبار بنتا جا رہا ہے ـ اس کے پیچھے ایک گروہ ہے جو کام کر رہا ہے انھوں نے علاقے تقسیم کئے ہوتے ہیں کہ یہ فلاں کا علاقہ ہے وہ فلاں کا ـ اسی طرح جب ایک فقیر کو خیرات مل جاتی ہے تو وہ دوسروں کو بھی بھیج دیتا ہے ـ بچوں کو اغواہ کر کے معزور بنا دیا جاتا ہے اور مانگنے پر لگا دیا جاتا ہے ـ یہ ایک الگ داستان ہے اور تصویر کا دوسرا رخ بھی کہا جا سکتا ہے ـ
آج کل یہ مشاہدے میں آ رہا ہے کہ مانگنے والے بظاہر اچھے حلیے میں ہوتے ہیں پہلی نظر میں سفید پوش ہی نظر آتے ہیں جیسے ہی وہ قریب آتے ہیں اور مانگتے ہیں تب ایک دم سے بندہ پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ کیا ہو گیا ـ کرونا وائرس کی وجہ سے اور سیکوریٹی خدشات کی وجہ سے بھی دل گھبرا جاتا ہے کہ نہ جانے اگلے لمحے کیا ہو جائے ـ کیونکہ ایسے لوگ اچھے حلیے میں ہوتے ہیں لہٰذا ان پر مانگنے کا خیال تک نہیں جاتا اور مختلف سوسائیٹیز اور فلیٹس کے سیکورٹی گارڈز اور اسٹاف ان کو روک ٹوک نہیں کرتے کیوں کہ ان کو ان کے اچھے حلیے کی وجہ سے کسی رہائشی کا رشتہ دار یا دوست تصور کیا جاتا ہے ـ خود سوچیں کہ ڈور بیل ہو اور آپ جائیں آگے اچھے حلیے کا بندہ یا بندی آپ سے مانگنا شروع کر دے تو آپ پر کیا گزرتی ہے ایک لمحہ کے لئے آپ چکرا کر رہ جاتے ہیں لیکن اب اس صورتحال سے روز ہی گزرنا پڑتا ہے جو کہ ایک خطرناک صورتحال ہے ـ
جب کوئی ایک بار مانگنا شروع کر دیتا ہے تو اسے مانگ کر کھانے کی عادت پڑ جاتی ہے ـ کیونکہ مانگنا محنت کرنے کی نسبت آسان ہے بس بے حس اور بے ضمیر ہونا پڑتا ہے ـ
گداگری اور مانگنے کے پیچھے کئی محرکات کارفرما ہیں جن میں بے روزگاری سرِفہرست ہے ـ کرونا وائرس کی وجہ سے روزگار ختم ہو گئے ہیں ـ ہماری بگڑتی معاشی حالت کی وجہ سے کئی کاروبار بند ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی نوکریاں چھن گئی ہیں ـ بیشتر لوگ دو وقت کی روٹی سے محروم ہو گئے ہیں ‘ بچے بھوک سے بلکنے لگے ہیں ‘ تن پر کپڑا نہیں ‘ پیروں میں چپل نہیں ‘ سر پر چھت نہیں ایسے میں کریں تو کیا ؟ کہیں کوئی بہتری کی امید نہیں نوکریاں نہیں ـ آج کے نوجوان بچے ڈگریاں ہاتھ میں لئے مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن کوئی پرسانِ حال نہیں ـ اس کی وجہ ہمارا تعلیمی نظام بھی ہے جو ہمیں کوئی ہنر نہیں سکھاتا ـ دوسرا ہم محنت سے جی چراتے ہیں کوئی چھوٹا کام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ـ جو لوگ محنت کرتے ہیں ان کو آگے آنے کے مواقع فراہم نہیں کرتے ـ کوئی کامیاب شخص کسی کی مدد کرنے کو تیار نہیں ہوتا ـ ہر کوئی اپنی لالچ میں مبتلا نظر آتا ہے ـ
گداگری کو روکنے کے لئے ہمیں چاہئیے کہ غیر مستحق لوگوں کو خیرات نہ دیں بلکہ خیرات یا امدد ان غریب رشتہ داروں کی کرنی چاہئیے جو مانگ نہیں سکتے ـ خیرات ان کو دیں جو قرب و جوار میں آپ کو مستحق نظر آئے اس سے ہر مانگنے والے ہڈ حرام اور کام چور کی حوصلہ شکنی ہو گی ـ
حدیثِ نبوی کے مطابق ” بلا ضرورت لوگوں کے سامنے جس نے ہاتھ پھیلائے وہ قیامت کے دن ایسے حاضر ہو گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا بلکہ محض ہڈی ہوگی ”
مزید یہ کہ حکومتی سطح پر ایسے مراکز بنائے جائیں جہاں غریب لوگوں کو ہنر سکھایا جائے تاکہ وہ اپنی زندگی محنت کر کے کما کر کھا سکیں ـ
مستحق معزور لوگوں یا بزرگ جو محنت نہیں کر سکتے ان کے لئے وظیفہ مقرر کیا جائے ـ
پیشہ ور بھکاریوں کو گرفتار کر کے سخت سزا دی جائے تاکہ معاشرے کو گداگری سے پاک کیا جا سکے ـ
حکومت پر انحصار کی بجائے ہمیں خود سے بھی کام کرنے چاہئیے جیسے اپنے اردگرد کے لوگوں کی مدد تاکہ وہ چوری کرنے پر مجبور نہ ہوں ـ اگر اللہ نے ہمیں دینے والا بنایا ہے تو یہ اس ذات کا ہم پر کرم ہے وہ اپنے بندے کو دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے ـ لہٰذا اس کے عطا کردہ مال سے لوگوں کی بے لوث مدد کریں تاکہ اس کی دی گئی نعمتوں کا حق ادا کر سکیں ـ