نوجوانوں سے چند گذارشات

کسی بھی معاشرے  میں نوجوانوں کا وجود ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔  اسی طبقہ کی صحت پر پورے معاشرے کی صحت کا دارو مدار ہے اگر اس طبقہ میں کسی بھی نوعیت کی بے اعتدالی پائی جائے تو اس سے پورے معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ نوجوان زمین کے اندر موجود ٹیکٹونک پلیٹ(Tectonic plate) کی مانند ہے جس میں زیر چٹان لاوا (lava) کے دباو کی وجہ سےذرا بھی شگاف پڑ گیا تو پوری ٹیکٹونک پلیٹ جھولتی ہے اور متاثرہ سطح پر زلزلہ آتاہے،جس کے بھیانک نتائج سے ہر ایک واقف ہے ۔ایک نوجوان کی معاشرے میں ایسی ہی کچھ حیثیت ہے اگر اس کی شخصیت میں کسی بھی قسم کی ناہموارگی پیدا ہوئی تو پورے معاشرے کو اس کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے،اس کے آس پاس کی پوری سوسائٹی کو اس نوجوان کی اخلاقی آوارگی کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ایک نوجوان کے اندر انقلابی جوہر موجود ہے لیکن اس کا اسے معلوم نہ ہونا شیر کو اپنی طاقت کے بارے میں نہ جاننے کے مترادف ہے ۔.اس لئے اس چیز کی معلومات حاصل کرنا محمد عربی صلی الله عليه وسلم کے نوجوان امتیوں کے لیے بہت ضروری ہے

ایک نوجوان کا ایک معاشرے میں کیا مقامِ عظمت ہے اس کا جاننا ہر نوجوان کے لیے از حد ضروری ہے ۔اگر نوجوان اپنے مقامِ عظمت کو نہ پہچان سکے تو نتیجتاً وہ اپنی شخصیت کو بیکار رکھ کے چھوڑ جاتے ہیں ۔وہ اپنی زندگی میں انسانیت کے لیے بہت کچھ ہونے کے باوجود بھی کچھ نہیں کر پاتے۔ وہ پاگل ہاتھی کی طرح توانا جسم ہونے کے باوجود بھی صرف نقصان پہنچاتے ہیں ،وہ حسن و جمال کا پیکر ہونے کے باوجود بھی مکرو فریب کی تصاویر ہوتے ہیں، وہ سینے میں ایک نازک دل رکھنے کے باوجود بھی سخت دل ہوتے ہیں، وہ دوربین کے ذریعے دور تک دیکھنے کے باوجود بھی دوربین نہیں ہوتے اوراپنی کھوپڑی میں دماغ رکھنے کے باوجود بھی بے دماغ ہوتے ہیں۔ان ساری خامیوں کے نتیجے میں وہ معاشرے کے لئے بیکار ہوجاتے ہیں ۔جس طرح اس کائنات کا ہر ایک ذرہ اس کے حسن و جمال کو برقرار رکھنے میں کارآمد ہے اسی طرح دنیا کا ہر ایک نوجوان انسانی معاشرے کی شکل و صورت کو بنائے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے.

جو بھی انسان اپنی حیثیت اور قدرو منزلت سے واقف ہو وہ ضرور بالضرور اپنی شخصیت سے معاشرے کے میں  کوئی کارنامہ انجام دے کے رہ جاتا ہے۔لیکن کوئی کرنے کے لئے پہلے اسے اپنے آپ سے واقف ہونا لازم تب جا کر وہ اپنی صلاحیتوں کو اچھے مقاصد کے لئے بروئے کار لا سکتا ہے۔

ایک مسلمان نوجوان کا ہر اعتبار سے معتدل ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا انسانیت کی بقا کے لیے ہر ایک حیاتیاتی عنصر کا معتدل ہونا لازم ہے۔ایک نوجوان جتنا افراط و تفریط سے بچ کراعتدال کی راہ پر گامزن رہتا ہے وہ اتنا ہی معاشرے کے لئے مفید و سود مند ثابت ہوتا ہے اور وہ جتنا بے اعتدالیوں کی بھینٹ چڑھتا ہے وہ اتنا ہی  معاشرے کے لئے وبال اور تباہ کن بنتا ہے۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ باد صبا کی سرسراہٹ سے تازگی حاصل کرے، یہ باد صبا ہوا کا معتدل ترین پیمانہ ہے جو انسانیت کے لئے مفید ہے اگر اسی ہوا کی رفتار زیادہ تیز ہو جائے تو یہی ہوا آندھی کی شکل اختیار کرتی ہے پھر اس آندھی کے راستے میں جو بھی کوئی چیز آئے وہ تباہ ہو کر رہ جاتی ہے ۔اسی طرح کا معاملہ نوجوانوں کا ہے اگر یہ نوجوان اپنے اندر سے طلاطم خیز خواہشات کو قابو میں رکھ کر اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو وہ معاشرے کے لیے بادصباسے کم نہیں ۔اسی طرح سے اگر بارش ایک معمول کی رفتار سے برستی ہے تو ابر کرم یا باران رحمت ہے اگر بہت تیزی کے ساتھ برستی ہے تو سیلاب کی شکل اختیار کرتی ہے جس کا نتیجہ ہر ایک کو معلوم ہے۔نوجوانوں کا معاملہ بھی بارش کی مانند ہے اگر اعتدال میں ہیں تو معاشرے کے لئے رحمت اور اگر معاملہ برعکس ہے تو زحمتی سیلاب سے کم نہیں ۔

نوجوانوں کے اندر ہر طرح کی خواہش اپنی فطری قید خانہ سے آزاد ہو کر بے لگام پاگل گھوڑے کی طرح اچھلنے اور کودنے لگتی ہے ۔جس پر اگر بروقت لگام نہ کسی گئی تو پھر معاملے کی نزاکت آوارگی کے بادلوں کی گردش کی وجہ سے اور بڑھ جاتی ہے ۔اس نازک ماحول میں جہاں ہر طرف نوجوانوں کو پر کشش دنیا مدعو کرتی ہیں، وہیں اس کے اندر کی دنیا سے ابھرنے والی خواہشات اپنا ہاتھ بڑھانےاور پھر دعوت سے تمتع حاصل کرنے کے لیے بے قرار ہوتی ہیں۔اس پیدا ہونے والے سنگم کے اتنے ہی بھیانک نقصانات ہیں جتنے ہمارےخون میں زہر کی آمیزش اور پھر سنگم کے نتیجے میں مرکب  بننے سے ہیں۔

اس کے عالم شباب کا وہ حسن برقرار نہیں رہ پاتا جس کی بنیاد پر وہ عوام الناس کی نیک اور جائز امیدوں اور تمناؤں کا مرکز کہلانے کا حقدار بنتا ہے۔ پھر جب معاملہ وہاں پہنچتا ہے کہ اسے اپنی اس فطری محبت کا فطری اور جائز طلبگار محبت کی طلب کرتا ہے تو اس کے پاس اس کو دینے کے لئے محبت کا کچھ بھی حصہ نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں اس کی پوری زندگی نا اتفاقی، جھگڑوں اور ہنگاموں کی آماجگاہ بن جاتی ہے ۔اس نے وہ محبت پہلے ہی ناجائز حقداروں میں بانٹی ہوئی ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے اس کا جائز حقدار عمر بھر تڑپتا رہتا ہے۔اس لئے نوجوانوں کو چاہیے کی اپنی ذات اور صلاحیتوں کی قدر اور حفاظت کریں ۔