ڈنڈا پیر

ایک شریف شہری کو پہلی مرتبہ گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تو بے چارہ بہت پریشان ہوا کہ جس گلی میں بھی وہ داخل ہوتا اسی گلی کے آوارہ کتے اسے کاٹنے کو دوڑتے۔کبھی اس گلی تو کبھی اس گلی بھاگتے بھاگتے جب وہ تھک کر ہانپنے لگا تو اسے ایک فقیر صدا لگاتے ہوئے دکھائی دیا۔سادہ لوح شہری سیدھا اس فقیر کے پاس گیا کہ چلو اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوں جب اپنے دوست کے گھر پہنچ جائے گا تو اس فقیر کا شکریہ ادا کر دے گا۔ابھی تھوڑی دور ہی دونوں گئے ہوں گے کہ فقیر نے شہری سے پوچھا کہ بیٹا کیا ماجرا ہے میں تو گھر گھر صدا لگانے اور مانگنے والا ایک حقیر سا انسان ہوں،تم میرے ساتھ ساتھ کس مقصد کے لئے چل رہے ہو۔فقیر کی یہ بات سنتے ہی شہری کے دل میں حوصلہ پیدا ہوا کہ چلو اب بابا جی میری مدد ضرور کریں گے۔اس نے سارا ماجرا فقیر کو سنادیا۔فقیر تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوا اور پھر اس نے اپنے ہاتھ والا ڈنڈا شہری کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ:

جاؤ بیٹا اب تمہیں گلی کے پالتو اور آوارہ کتے کچھ نہیں کہیں گے

اس کہانی لکھنے کے پیچھے کا مقصد کیا ہے امید ہے کہ اہل فکرودانش اور پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے ضرور سمجھ چکے ہوں گے کہ پاکستانی نظام کو چلانے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے۔کیونکہ پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ’’وگڑیاں،تگڑیاں دا ڈنڈا پیر‘‘۔اس اکھان کا اطلاق صرف انسانوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ بھیڑوں کا ریوڑ بھی جب کبھی منتشر ہو جائے تو چرواہا ایک ہی لاٹھی کے ساتھ سب کو ہانک کر ایک جگہ جمع کر لیتا ہے۔یعنی بابا بنا، ڈنگوری کس کام کا؟یہ بھی ہے کہ بابے کے بغیر بکریاں نہیں چرتیں۔حالانکہ بکریوں کوبابے سے کوئی غرض نہیں ہوتی ان کو تو بابے کے ہاتھ میں ڈنڈے کا ڈر ہوتا ہے۔جو کام ہماری سیاسی جماعتوں کا رہا ہے مجھے لگتا ہے کہ انہیں بھی بابے کے ڈنڈے کی ضرورت ہے ۔کہ ان کے بنا ان میں نظم وضبط قائم نہیں ہو سکتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ڈنڈے کی ضرورت کیوں ہے؟کیا ہم باشعور قوم نہیں،ہم اپنا بھلا اور برا خود نہیں سوچ سکتے،ہم اچھے اور برے میں از خود تمیز نہیں کر سکتے کیا؟۔میرا خیال ہے کہ نہیں،اگر ہم عوام میں یہ استطاعت ہوتی تو پھر اور بھلا کیا چاہئے تھا۔ہم تو غلام ہیں اپنی خواہشات اور مجبوریوں کے۔ہم تو مقید ہیں روٹی ،کپڑا اور مکان کے دائرے میں،ہمارے پاؤں میں تو بیڑیاں ہیں اپنی اغراض کی۔تو پھر ہمیں کیا،کہ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے کہ بغل میں چھری۔ہمارا کام تو کوزہ گر کے حمار کی طرح بس سر جھکائے ،گلے میں باندھی گھنٹی کی صدا کی فریکوئنسی کے ساتھ قدم اٹھاتے جانا ہے بنا سوچے اور دیکھے کہ کیا مالک بھی ساتھ ہے کہ نہیں۔ہم عوام کو ہمارے سیاستدانوں نے اس قابل ہی  نہیں چھوڑا کہ ہم کوئی سوال اٹھا سکیں بلکہ ہمارے اذہان میں تو اب سوال پیا ہی نہیں ہوتے۔سٹیفن کنگ نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ جن ذہنوں میں سوال پیدا ہی نہیں ہوتے وہ ذہنی غلام ہوتے ہیں۔اور اگر کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہو بھی جائے تو انہیں دال روٹی کے چکر میں ایسے پھنساتے ہیں کہ اس چکر سے نکلتے نکلتے انہیں عرصہ لگ جاتا ہے۔

آج کی سیاسی صورت حال میں بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ لوگوں کو  بس ایک کال دے دی جاتی ہے کہ پی ڈی ایم کا جلسہ فلاں شہر میں ہے۔لہذا نکلو اپنی زندگیاں بچانے کے لئے۔نکلو کہ مہنگائی بہت ہے،نکلو کہ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں،نکلو کہ وزیر اعظم ملک کھا گیا وغیرہ وغیرہ۔بالکل ملک میں مہنگائی ہے،ملک بیرونی قرضوں تلے دبا ہوا ہے،سابقہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے نئے قرضے لئے جا رہے ہیں۔حقیقت میں دادا نے لئے اور اب پوتا اتار رہا ہے۔بالفرض عوام کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر اسلام آباد جا کر پارلیمنٹ کا گھیراؤ کر لیتا ہے۔وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا جاتا ہے،چلئے وہ مستعفی ہو بھی جاتے ہیں تو کیا ملکی سیاسی و معاشی صورت حال ٹھیک ہو جائے گی۔

اگر نہیں تو پھر اس کا حل کیا ہے؟ہم نے کبھی سوچا؟نہیں ،ایسا کبھی بھی کسی بھی دور حکومت میں نہیں ہوا۔اور نہ ہی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے گھیراؤ سے وزیر اعظم مستعفی ہوا ہے۔اس لئے ہمارے سیاستدانوں کو وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں،انہیں مل کر ایسا کلچر پروموٹ دینا چاہئے کہ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو ملکی معاملات خواہ وہ سیاسی ہوں کہ معاشی باہمی تعاون سے سرانجام دئے جائیں۔کیوں کہ ملک تو ہر پارٹی کا ہے اور اگر ملک ہر پارٹی کا ہے تو پھر حزب مخالفت میں سب جماعتوں کو ایک وزیراعظم کو گرانے کی بجائے اسے ملکی بقا کی خاطر سپورٹ کی ضرورت پر زور دیا جائے تو ملکی معاملات بہتری کی جانب چلائے جا سکتے ہیں۔لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ میرا کتا ہی ٹومی ہے باقی سب آوارہ ہیں۔جب ایسے خیالات پرورش پائیں گے تو پھر ڈنڈے والا بابا ہی آئے گا ،جو انہیں سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر پھر سے ملکی معاملات کو سدھارنے کی کوشش میں لگ جائے گا۔میری ان سیاستدانوں سے عرض ہے کہ ایسا ماحول پیدا نہ کریں کہ ڈنڈے والی سرکار پھر سے ملک میں حکومت سنبھال لے بلکہ باہمی معاونت سے ملکی سیاسی فضا کو ملکی ترقی کی طرف گامزن کریں۔ایسی فضا جس میں پاکستانی عوام کی زندگی اجیرن نہیں بلکہ خوش حال ہو۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔