ہوم اسکولنگ – کیوں؟ اور کیسے؟؟؟

“ہوم اسکولنگ” کا لفظ ہمارے ماحول میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔اسکی افادیت پر مختلف پہلوؤں سے بھت سی معلومات دی جا رہی ہیں۔ میں ایک ماہر نفسیات ہوں اورپچھلے بارہ سال سےتعلیم و تربیت کے شعبہ سے وابستہ ہوں۔

کئ دہائیوں سے جاری تعلیمی نظام سے ہٹ کر ہوم” اسکولنگ” کے جدید طریقہ کار کو میں نے اپنے بچوں کے لئے کیوں منتخب کیا؟ ایک نفسیات داں ہونے کے نقطہ نظر سے اس سوال کا جواب پیش کرتی ہوں۔

ابتدائی عمر کا learning process صرف تعلیم کا ہی نہیں بلکہ تربیت کا بھی learning process ہے۔ جہاں ان کے قدوقامت، ہڈیاں اور دیگر جسمانی نظام نشوونما پارہے ہوتے ہیں وہاں جذبات، رجحانات اور کردار بننے کا بھی یہی وقت ہے ۔ پچھلی صدی کے ابتدائی ادوارکو  دیکھیں تو  تعلیمی نظام کسی حد تک معاشرے کی مذہبی، سماجی اور تہذیبی اقدار کی منتقلی لرننگ پروسس کے ساتھ کر رہا تھا۔ لیکن جدید سائنسی بنیادیں رکھنے والے علوم کا تناسب بڑھ جانے اور تعلیم ایک کاروبار بن جانے کے بعد اخلاقی اور سماجی اقدار کے لئے تعلیمی نصاب میں بھت کم حصہ رہ گیا۔ اقدار کی منتقلی کے لئےاہم ترین دور ابتدائ پانچ سال ہیں۔ اس عمر میں بچہ جو سیکھتا ہے تمام عمر انہی خطوط پر چلتا ہے مثلاً بزرگوں کی عزت، سچ بولنا، بیمار کی تیمارداری، مہمان کی عزت، نرمی سے بات کرنا۔۔۔ یہ سب غیر محسوس طریقے سے منتقل ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ سال والدین کے لئے بہت ذمہ داری کے سال ہیں۔ اس عمر میں جذبات و احساسات بنتے اور نشوونما پاتے ہیں۔ یہ جذبات و احساسات ہی کردار بناتے ہیں جو آگے چل کر پوری زندگی میں جھلکتا ہے۔ ہوم اسکولنگ بنیادی طور پر اس ابتدائ وقت کو کارآمد بنانے کا نام ہے جس پر بچے کے کردار کی تعمیر منحصر ہے۔

عمر کے اس حصے میں بچے کو  جسمانی ضروریات پورا کرنے پر تمام تر زور ہوتا ہے ملبوسات کھلونوں اور غذائ ضروریات کے بہم پہنچانے میں والدین اپنا پورا حصہ ڈالتے ہیں لیکن کم ہی والدین جانتے ہیں کہ اس عمر کی جذباتی ضروریات emotional needs  بھی ہوتی ہیں؟ جنکو سلیقے سے ایک پروگرام کے تحت پورا کیا جائے تو بچہ ایک با صلاحیت اور مثبت کردار کی شخصیت بنے گا۔

بنیادی طور پر بچوں کی چار  emotional needs ہوتی ہیں: unconditional love 1

یعنی غیر مشروط محبت۔ وہ معصوم ہوتے ہیں۔ جو محبت کرے اسی کے ہوجاتے ہیں۔

2۔ sense of security

 یعنی تحفظ کا احساس۔

3۔exposure to new experiences

ان کے لئے تمام گھریلو چیزیں، بجلی کے الات، گھر میں انے والے لوگ ہر چیز پر تجسس ہوتی ہے۔ وہ انہیں سمجھنا چاہتے ہیں۔

4۔need to be disciplined

یعنی انکی چھوٹی سی دنیا میں نظم و ضبط کی پابندی ہو۔

ہوم اسکولنگ کے خواہشمند والدین کو چند امور سمجھ لینا چاہئے۔

نظم وضبط کی پابندی:

ماں کو اپنی گھریلو اور باپ اپنی بیرونی زمہ داریوں کے ساتھ ہی ہوم اسکولنگ کرنا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ وہ خود نظم وضبط کے پابند ہوں۔ اپنے بچے کے کردار کی بہترین بنیاد بنانے کے لئے اپنی غیر معمولی تفریحی سرگرمیوں اور بلا وجہ کے روابط پر کنٹرول رکھنے والے ہوں۔ پھر جو معمولات ترتیب دیں اسمیں بار بار تبدیلی نہ لائیں۔ غیر مستقل مزاجی اور بے ترتیبی اس عمل کے اثرات کافی حد تک کم کر سکتی ہے۔

بچے کی ذہنی رجحان کو پرکھنا:

ہر بچہ منفرد ہوتا ھے اور دوسرے بچے سے مختلف ذہانت لے کر آتا ہے۔ چے کے رجحان کو سمجھنا اس لئے ضروری ہے کہ تعلیمی  نصاب اسی لحاظ سے مرتب کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر ایک بچے کا والد تجارت پیشہ ہے اور بے کا رجحان اسی طرف محسوس ہوتا ہے تو اسے بنیادی بزنس میتھڈ جیسے پیسوں کا حساب رکھنا، بچت کرنا، صدقہ خیرات کا تصور اسکے نصاب میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

صحت مند رہنے کے اصول:

درست غذائی عادتیںں، سنتوں کی روشنی میں صحت کے اصول اسی دور میں سکھائے جائیں تو بڑے ہو کر قوت مدافعت مضبوط رہتی ہے اور بیماریاں بار بار حملہ آورنہیں ہوتی ہیں۔

کچھ عملی پہلو:

تعلیمی نصاب کی منصوبہ بندی:

ابتداء ہی میں آپ منصوبہ بندی کر لیں کہ آپ کو کتنے سال ہوم اسکولنگ کرنا ہے۔ اگر آپ دس سال کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو آپ کو بچے کی نصابی تیاری اس طرح کرنی ہوگی کہ اسکو چھٹی جماعت میں داخلہ مل جائے۔ اس کے لئے آپ کو اسکول انتظامیہ اور سیلف ھیلپ گروپس سے مدد مل سکتی ہے۔

اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ بچے کو گھر میں وہ سارا ماحول مہیا کرنے پر زور لگا دیں جو ایک ماڈرن نرسری اسکول میں ہوتا ہے۔۔ ابتدائ سال اقدار کی منتقلی، ادب آداب سیکھنے اور محبت آمیز رویوں کے سال ہیں۔ اس کے ساتھ logical ذہانت بڑھانے کے سال ہیں۔ ذہن میں سوالات پیدا کیجئے اور پھر جواب دیجئے۔ مثلاً بارش کیوں ہوتی ہے؟ ہم کھانا کیوں کھاتے ہیں؟ گرمی میں گرمی اور سردی میں سردی کیوں ہوتی ہے؟ یہ سب گھریلو نصاب کا حصہ ہے

زندگی کے گر اور مہارتیں سکھانا:

وہ سارے کام جو زندگی کی ضرورت ہیں بچوں کو سکھائے جائیں۔ ذاتی کام مثلاً اپنے جوتے صاف کرنا، دراز اور کھلونے سمیٹ کر رکھنا، گھر کی صفائی میں مدد دینا، گھر کے پالتو جانوروں کی دیکھ بھال وغیرہ۔ اس طرح کے کاموں میں بچوں کو مصروف رکھنا آگے چل کر ان کی زندگی میں بھت کام آتا ہے۔

اسکول کارنر :

کچھ شعور آنے کے بعد عموماً تین سے چار سال کی عمر میں بچوں کے لئے ایک ذاتی جگہ ضرور مخصوص کی جائے۔ جہاں بیٹھ کر وہ پڑھیں لکھیں اور کوئ اپنا کام کریں۔ جب میرا بیٹا چار سال کا ہوا تو میں نے گھر کا ایک کونا “اسکول کارنر “کے نام سےمخصوص کر دیا۔ اسکی تیاری میں ایک ہفتہ لگا۔جس میں میرا بیٹا میں خود اور اس کے دادا ابو مصروف رہے۔  یہ ایک چھوٹی کتابوں کی الماری، ایک میز اور ایک کرسی پر مشتمل تھا۔ الماری کو پینٹ کر کے نیا روپ دینے میں بیٹے نے جوش خروش سے حصہ لیا۔ یہ کارنر اب اسے اپنی ملکیت لگتا ہے اور وہ اس میں کوئ بے ترتیبی نہیں ہونے دیتا۔

چھوٹی لائبریری:

ہرگھر میں تعلیمی نصاب سے ہٹ کر بڑوں کے زیر مطالعہ کچھ نہ کچھ کتابیں ضرور ہوتی ہیں اخبار اور رسائل ھوتے ہیں۔ ان کو لائبریری کی شکل دینا اور اسکو مینٹین رکھنا بڑوں کا کام ھے۔ یہ لائبریری ھوم اسکولنگ میں بچے میں مطالعے کا رجحان پیدا کرنے کا بھت موثر ذریعہ ہے۔

ہوم اسکولنگ کا موضوع تقاضا کرتا ھے کہ اس پر بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے نئ نئ معلومات مستقل حاصل کی جاتی رہے تاکہ آپ کا بچہ اعلیٰ اخلاق و کردار کا حامل ہونے کے ساتھ زمانے کی جدت کا ساتھئی دے سکے۔