نیا برس،پرانے خیالات

وقت کبھی بھی ساکت و منجمد نہیں ہوتا۔وقت ایسا پرندہ ہے جس کی زندگی صرف اور صرف اڑان بھرنے میں ہی ہوتی ہے۔یونہی تھوڑی دیر سستانے کو رکا سمجھ لو کہ وقت کی نبض ڈوب گئی۔اسی لئے بزرگ کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ چلو،ایسا نہ ہو کہ وقت آپ سے آگے نکل جائے اور آپ زمانہ کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو جائیں۔یا پھر آپ اپنے کردار وعمل سے اپنے آپ کو اتنے معتبر کر لیں کہ وقت آپ کے لئے انتظار کرے۔لیکن وقت جن لوگوں کا انتظار کرتا ہے یا رکتا ہے وہ اس کرہ ارض کے باسی نہیں ہوتے۔ان کی روحانی دنیا ہی کچھ اور طرح اور لیول کی ہوتی ہے۔جن کے بارے میں اقبال نے اشارہ فرمایا ہے کہ ۔

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن کا بھی کچھ ایسا ہی فیصلہ ہے کہ جب یہ بندے میرے ہو جاتے ہیں تو پھر ذات باری تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’میں ان کا ہاتھ بن جاتاہوں ‘‘گویا اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی ذات مسلمانوں کے کان ،ہاتھ اور آنکھیں بن جائے تو پھر ہمیں اس ذات باری تعالٰی کا ہونا پڑے گا۔لیکن اس میں لگتی ہے کچھ محنت زیادہ۔اور ہم اسی محنت سے جی چراتے ہیں۔اگر ہم محنت کو زندگی کا حصہ بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ بھی اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کئے جانے لگیں۔لیکن ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ:

خود بدلتے نہیں قرآن بدل دیتے ہیں

یاد رکھیے جب تک انسان اپنی ذات کے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرے گا اس وقت تک ظاہری دنیا میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہونے والی۔اس تبدیلی کو جو انسان کی ذات کے اندر پیدا ہوتی ہے اسے باطنی تبدیلی کہا جا تا ہے جو کہ صوفیا اور اللہ والوں کا وصف ہوتا ہے اور ان بندوں پر اللہ کا کرمِ خاص اور عنایت ہوتی ہے۔اسی لئے ایسے لوگوں کے بارے میں اہل تصوف کا خیال ہے کہ وہ اپنی زبان اور الفاظ سے نہیں بلکہ اللہ کی عطا سے بولتے ہیں۔وقت ان کی مٹھی میں قید ہو جاتا ہے۔لیکن وہ لوگ جو وقت کے بدلنے سے اپنے آپ کو نہیں بدلتے وہ ساری عمر پچھتاتے ہی رہتے ہیں۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو وقت کی قدر نہیں کرتا،وقت بھی اس کی قدر نہیں کرتا۔لہذا یاد رکھیں کہ وقت کی قدر کرنے والے ہی دنیا میں عظیم لوگ بنتے ہیں۔

سال نو جب آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہماری زندگی کا ایک سال کم ہو گیا ہے۔نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی ایسے لوگ جو دنیا میں کامرانی و فلاح کے راستے کے مسافر ہوتے ہیں وہ اپنی بیاض میں نئے سال کے لئے اپنی پلاننگ شروع کر دیتے ہیں۔کہ انہیں نئے سال میں اپنی کوتا ہیوں اور کمزوریوں کو ختم کرنا ہے اور اپنے راستے میں آنے والے مسائل کا حل نئے سال میں کیسے تلاش کرنا ہے۔لیکن یاد رکھئے گا کہ نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی وہی لوگ اپنے آپ کو بدلتے ہیں جو خود کو بدلنا چاہتے ہیں۔جو زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنی ذہنی صلاحیتوں اور خیالات کو بھی بدلتے ہیں۔وہ اس لئے کہ زمانہ بہت برق رفتاری سے بدل رہا ہے۔لہذا زمانہ کے ساتھ وہی لوگ پا با رکاب ہو سکتے ہیں جو بدلتے سمے کے ساتھ اپنی سوچ اور فکر کو تبدیل کر لیتے ہیں۔وہ لوگ جو بدلتی اقدار کے ساتھ اپنے خیالات کو تبدیل نہیں کرتے وہ زمانہ سے بہے پیچھے رہ جاتے ہیں۔علامہ اقبال نے اپنے بیٹے جاوید اقبال کے لئے اس وقت جبکہ جاوید اقبال نے اپنے بابا سے ٹیپ ریکارڈر لانے کی فرمائش کی تو انہوں نے اس کا جواب اپنی اس غزل میں دیا جو کہ آج کے بچوں کے لئے بھی مشعل راہ ہے۔ضرورت سوچ کی ہے۔

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر

نیا زمانہ،نئے صبح و شا م پیدا کر

آج بھی اگر میری قوم کا ہر نوجوان اپنے آپ کو جاوید سمجھ کر علامہ کی اس غزل کو اپنے لئے مینارہ ہدائت سمجھ لے تو کوئی وجہ نہیں کہ آج کا نوجوان بھی وقت کے سینے کو چیر کو اس سے نئی راہیں،سمتیں اور مواقع تلاش لے۔لیکن ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟ملک پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے سات دہائیوں سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن ہم آج بھی دنیا کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ترقی کی دوڑ میں ایسے بہت سے ممالک سے ہم پیچھے ہیں جو ہمارے بعد قائم ہوئے۔اس کی سب سے بڑی وجہ سوچ کی تبدیلی ہی تھی۔ہم اپنی قدامت پسندی ،رویوں کو زمانہ کے مطابق تبدیل نہ کرنے کی بنا پر وہ ترقی نہ کر سکے جس کا خواب قائد و اقبال نے دیکھا تھا۔اقبال کا یہ ایک شعر ہی ایسے لوگوں کے لئے مشعل راہ ہو سکتا ہے ،اگر وہ اپنے خیالات کو قدامت پسندی کے چنگل سے نکال کر بدلتے زمانہ کے ساتھ تبدیل کر لے۔

آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے انداز ِ گلستاں پیدا

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔