ہماری حس مزاح بھی بگڑ گئی!۔

حس مزاح زندگی میں بہت اہم ہوتی ہے ۔یہ حس ہمیں مشکل اوقات میں تروتازہ رکھتی ہے۔ ہمیں ہنساتی ہے اور لوگوں کو زندگی عطا کرتی ہے۔ جب مشکلات اور پریشانیوں نے ہمارے  وہم و گمان کو گھیر رکھا ہوتا ہے اس وقت تفریح جسمانی و ذہنی آرام کا سبب بنتی ہے۔ لیکن تفریح کیا ہے؟ حس مذاق کس چیز کا نام ہے؟ ایک وقت میں عالم حاکم اپنے درس و تدریس کے عمل کو موثر بنانے کے لیے حس  مزاح استعمال کرتے تھے۔ جس سے نہ صرف سننے والا بے حد متجسس ہو جاتا بلکہ  سیکھتابھی جاتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ کی گلستان اور بوستان ہیں۔ ان کو پڑھنے اور جاننے والے اس بات کا ادراک کریں گے کہ بہت سے اسباق ہم کو حس مزاح کے ذریعے دیے گئے۔ لیکن وقت بدلا اور ہماری ہنسی مذاق بھی نام نہاد ایڈلٹ ہو  ہو گئی۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا پر جتنا بھی تفریحی مواد ہے تقریبا سارا ہی انتہائی غلیظ ہے۔ گالیوں کا استعمال عام ہو گیا ہے۔  Sexualمواد کو اب ہم اپنے لئے تفریح سمجھتے ہیں۔

 اب اس امر پہ جتنا پچھتاوا کیا جائے کم ہے ۔ایک طرف کہاں مستاق احمد یوسفی، عطاء الحق قاسمی اور پطرس جیسے نایاب  ہیرےاور دوسری طرف آج کی ہنسی مذاق۔ ہمارا سارے کا سارا مائنڈ سیٹ ہی بدل گیا ہے۔ مجھے اس وقت پوری سوشل میڈیا سے انتہائی  شکوہ ہے اور وہ بھی  رنجش کی حد تک۔ یوٹیوب ،فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام غرض ہر ایک جگہ پر تفریح کے نام پر عریانی اور  فحاشی عام ہوگئی ہے۔ ایک عجیب الفطرت  پیشہ تخلیق کیا گیا ہے جس کو میمر(Memer) کہا جاتا ہے. تمام دن یہ لوگ اپنی مرضی کا مواد پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ اور مذاق کی حس کو بگاڑنے میں سب سے بڑا کردار انہی لوگوں کا ہے۔ میرے بہنوں بھائیو اس چیز کا نام تفریح نہیں ہے۔ جہاں گالی عام ہو گئی ہو اور عریاں مواد کو ایک عام چیز سمجھا جائے، وہاں کس چیز کی تہذیب باقی رہ جاتی ہے؟ پورن انڈسٹری تک تو ہماری حس مزا ح پہنچ گئی ہے۔ اب اس بات پر رویا نہ جائے تو کیا کیا جائے۔ مقدس رشتوں کا مذاق اڑا دیا گیا ہے ،کسی بھی انسانی رشتے کا اب لحاظ باقی نہیں رہا اور ہماری یوتھ اس چیز کی طرف مائل ہے جو کہ کسی المیہ سے کم نہیں۔

 سوشل میڈیا پر بے تحاشہ  عریاں مواد روزانہ کی بنیاد پر  شائع ہوتا ہے ان کو بے حد پھیلا دیا جاتا ہے اور ہنسی مذاق  کے نام پر تہذیب کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔روسٹنگ(Roasting)اور میمز(Memes) کے نام پر کسی کی بھی عزت کو پارہ پارہ کر دیا جاتا ہے ۔ستم در ستم یہ کہ ان سب چیزوں کا دفاع کرنے والے بھی لاکھوں میں ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایسی چیز کا نام تفریح ہے ؟کیا اسی راستے سے ہم مزا حاصل کر سکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ ہمارے پاس بےحد  مفیداور  مہذب ذرائع بھی ہیں جن کو استعمال کرکے ہم  نہ صرف تفریح حاصل کر سکتے ہیں بلکہ فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ اس بے حیا تفریح کی بجائے ہم نامور شعراءکو پڑھ سکتے ہیں جنہوں نے مزاح میں نام کمایا ہے۔ اس کے علاوہ اردو ادب میں تنقید و مزاح پر لکھی گئی کتابیں بھی بے شمار ہیں جو کہ نہ صرف ہم کو ہنساتی ہیں بلکہ نہایت خوبصورت سبق بھی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ڈیجیٹل تفریح ہی  مقصود ہے تو اچھا مواد بھی بہت زیادہ ہے۔ لیکن اچھے مواد کو لوگ دیکھتے سنتے نہیں۔

 یوٹیوب پر اس وقت تک درجنوں پرینک ( Prank)چینل موجود ہیں جو کہ عوام کو بلاوجہ تنگ کرتے ہیں اور بعد میں معذرت کرکے اپنی ویڈیو پکی کرتے ہیں۔ اگر ہم ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ ہمارا دل و دماغ کس قدر آلودہ ہو گیا ہے تو یقین کریں کہ رونا آجائے۔

 میری نوجوانوں سے بہت اپیل ہے کہ خدارا ایسی  چیزوں کو نارمل نہ سمجھا جائے۔ یہ غلط ہی ہے ۔اور وہ جو سب یہ تخلیق کرتے ہیں ان سے بھی التماس ہے کہ خدارا اس قوم پر ترس کھائیں۔

 میری اعلی حکام اور پی ٹی اے سے درخواست ہے کہ باوقار تفریح کو فروغ دیا جائے اور گھٹیا اور غلاظت سے بھری چیزوں کو رد کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا تو ہمارے ملکی حالات انتہائی  دگرگوں ہو جائیں گے۔ نوجوان نسل ایک انتہائی غلط راستے پر نکل پڑی ہے۔  جس کو روکنا اور اس کا قلع قمع کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ نوجوان نسل ایسی چیزوں سے دور رہے اور ماں باپ بھی سختی سے ان کو روکیں۔ اسی طرح سے ہم ایک باوقار قوم کی بنیاد ڈال سکتے ہیں۔