ہزارہ برادری کا دکھ اور حکمران

یہ دیس ہے اندھے بہروں کا

اے چاند یہاں نہ نکلا کر

 گذشتہ چند دہائیوں سے ملک میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص دہشت گردی کے واقعات معمول کی باتیں بن چکی ہیں ۔

بلوچستان کے ابھرتے ہوئے ادیب و افسانہ نگار فارس مغل اپنی کتاب “سو سال وفا” میں ایک جگہ لکھتا ہے کہ ” بلوچستان میں قبائلی جھگڑوں نے مہر گڑھ کے قدیم تہذیبی آثار دفن کردیے ۔ کسی بھلے مانس نے ہزار خزانے دفن کردیے ۔ خدا نے معدنیات دفنا دیں اور اب لوگ عدم برداشت کی مثالیں قائم کرتے ہوئے ایک دوسرے کو دفن کر رہے ہیں ۔ یہاں ہر شے دفن کیوں ؟؟؟”

 اس اقتباس کو اگر بلوچستان کے حال اور ماضی کے تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو یہاں رونما ہونے  والے واقعات پر صادق آتا ہے ۔ یہ ایٹمی ملک کا جغرافیائی لحاظ سے امیر ترین خطہ ہے مگر علاقائی حساب سے غریب ترین اور بے بس ترین صوبہ ہے ۔ جبکہ اس صوبے کے ساتھ حکمرانوں کا رویہ پچھلے ستر سالوں سے بے حسی کا رہا ہے ۔ اس دھرتی کے لوگوں کا کام صرف اپنے پیاروں کی خون آلود لاشیں اٹھانا اور دفن کرنا یا پھر اپنی لاشوں سمیت یخ بستہ راتوں میں احتجاج کرنا رہ گیا ہے ۔ مذہبی, لسانی اور علاقائی فرق سے ہٹ کر ہر کوئی صرف اور صرف ماتم زدہ ہی ہے ۔ یہاں صبح گھر سے نکلنے والے کو واپس گھر آنے کی امید نہیں ہوتی۔

ہم ایک ایسے ایٹمی ملک کے مکین ہیں جہاں بقول وسعت اللہ خان ایٹم بم کی سولہ سالہ دوشیزہ کی طرح حفاظت کی جاتی ہے مگر اس ملک کے عوام جن کے تحفظ کے لیے یہ اسلحہ اور ایٹم بم بنائے گئے ہیں ان کا خون ہر چیز سے زیادہ سستا ہوگیا ہے اور فراوانی سے بہایا جا رہا ہے اور سیکیورٹی برائے نام ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں سنہ 2013 سے اب تک 50 سے زیادہ صرف خود کش حملے ہو ئے ہیں۔

 8 اگست 2016 کو کوئٹہ میں بلال انور کاسی نامی وکیل کو قتل کیا مگر جب لاش سول سنڈیمن ہسپتال منتقل کی گئی تو وکلاء اور میڈیا کا ہجوم جمع ہوگیا اور موقع سے فائدہ اٹھا کر خود کش حملہ کیا گیا جس میں 56 وکلاء اور 2 صحافی سمیت 73 افراد شہید ہوئے ۔ اسی طرح 14 جولائی 2018 کو مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں انتخابی جلسے میں خود کش حملہ ہوا  ۔ اس حملے میں نوابزادہ سراج رئیسانی, جو سابق وزیر اعلیٰ اور چیف آف جھالاواں، نواب اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی تھے ٹارگٹ ہوئے ۔ ان کے ساتھ مزید 150کے قریب افراد شہید ہوئے اور 186 زخمی ۔ کئی ایسے گھرانے بھی تھے جن کے گھروں کے دو سے تین افراد شہید ہوئے ۔ اسی علاقے کے مکین عبدالحق کے تین بیٹے بھی مارے گئے جو صرف یہ دیکھنے گئے تھے کہ جلسے میں کیا ہوتا ہے۔ شہداء میں سات معصوم بچے بھی شامل تھے ۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

 اپنوں کے ساتھ ساتھ اس سرزمین پر غیر ملکیوں کا بھی لہو بہایا جاتا رہا ہے ۔ 25 مئی 2011 کو کوئٹہ خروٹ آباد میں چیچنیا کے ایک جوڑے کو دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سمیت بے دردی قتل کیا گیا  ۔ افسوناک بات تو یہ ہے کہ وہ عورت سات ماہ سے حاملہ بھی تھی ۔ یعنی ایک ایسے بچے کا بھی قتل کیا گیا جو ابھی اس دنیا میں آیا بھی نہ تھا ۔ اسی طرح 2017 میں چینی جوڑے کو قتل کیا گیا ۔ یہ تو چند چیدہ چیدہ واقعات ہیں ۔ ان کے علاوہ علاقائی لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے اور سیٹلرز کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات الگ ظہور پذیر ہوتے رہے ہیں  ۔

 اسی تناظر میں اگر یہاں ہزارہ کمیونٹی کی بات کی جائے تو ہزارہ بیسویں صدی میں افغانستان کے مخدوش حالات کی وجہ سے وہاں سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے ۔ ان کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے ۔ مگر انہوں نے یہاں بھی صرف لاشیں ہی اٹھائی ہیں ۔ جنہیں شیعہ سنی مسلک کا نام دے کر فائلوں کی دبیز تہ کی نذر کیا گیا ۔ بات اگر شیعہ سنی فسادات کی ہی ہوتی تو ہزاراہ کمیونٹی سے ہٹ کر بھی شیعہ فرقے کی کثیر تعداد یہاں آباد ہے مگر یہ اپنے چہروں کی مخصوص نقش و نگار ہونے کی وجہ سے بھی شاید فرقہ واریت کا زیادہ نشانہ بن رہے ہیں ۔

 2020 کی دہائی سے لے کر اب تک ہزارہ کمیونٹی کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ پرتشدد واقعات کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ 10 جنوری 2013 کو اس کمیونٹی کے لوگوں پر ایک حملہ کیا گیا جس میں سو سے زائد لوگ اپنی جانوں سے گئے اور صرف سوا مہینے بعد 18 فروری 2013 کو کوئٹہ میں ہونے والے ایک اور بم دھماکے کے نتیجے میں تین منزلہ عمارت منہدم ہو گئی اور کئی دکانیں تباہ ہوگئیں۔ دہشت گردی کے اس حملے میں ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے تقریباً 90 لوگ شہید ہو گئے ۔جس کے نتیجے یہ لوگ لاشوں سمیت دھرنا دینے پر مجبور ہوگئے ۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا ۔ 3 اپريل 2018 کو کوئٹہ میں فائرنگ سے ہزارہ قبیلے کے مزید دو افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ 12 اپریل 2019 کو سبزی منڈی میں خود کش حملے میں اس کمیونٹی کے مزید بیس افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔

 سال نو کے دوسرے روز یعنی 2 جنوری 2021 کو کوئٹہ سے جنوب مشرق کی جانب ساٹھ کلومیٹر دور مچھ میں کوئلہ کی کان میں کام کرنے والے ہزارہ برادری کے دس کان کن مزدوروں کو مسلح افراد نے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اور ہاتھ باندھ کر انہیں بے دردی سے ذبح کیا جن میں افغانستان کے پانچ افراد بھی شامل ہیں  ۔ خبر رساں ادارے کےمطابق شدت پسند تنظیم “دولتِ اسلامیہ” نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

 دکھ میں ڈوبے ان لوگوں نے ایک بار پھر انصاف کی امید اور قاتلوں کی گرفتاری کے لیے لاشوں سمیت دھرنا دیا ۔کوئٹہ کی سخت ترین سردی میں جہاں درجہ حرارت منفی نو ڈگری تک ہے, ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ کمیونٹی کے افراد اپنے عزیزوں کی لاشیں لے کر سات دنوں سے مسلسل احتجاج کرتے رہے ہیں جن میں چھوٹے چھوٹے بچے, عورتیں اور بوڑھے افراد بھی شامل ہیں ۔ وہ چھوٹی بچی بھی شامل تھی ۔ جس کے والد کی لاش ان میں شامل تھی ۔ وہ بہنیں بھی شامل تھیں جن کے گھر کا واحد مرد سربراہ اور کمانے والے بھائی کی لاش بھی یہاں موجود تھی ۔ بدقسمتی یہ کہ اس لاش کو کندھا دینے کے لیے صرف بہنیں زندہ تھیں ۔

 لاش پہ لاش گری نیند نہ ٹوٹی تیری

حاکمِ وقت تیری مردہ ضمیری کو سلام

یہ تو کہانی ہے اب تک کی دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں احتجاج کی ۔ اب آتے ہیں حکمران طبقے اور ان کے رویے کی جانب  ۔ اس سلسلے میں چاہے پرانی حکومتیں رہی

ہوں یا موجودہ حکمران طبقہ صرف اور صرف بے حسی دیکھنے میں آئی ہے ۔ اس بار بھی مقتدر حلقوں کی جانب سے حسب معمول لفظی مذمت کی گئی مگر حکمران وقت اپنی دوسری ترجیحات کی وجہ سے یہاں وقت پر آکر ان کی دلجوئی نہ کرسکے ۔ کیونکہ اس وقت خود ساختہ ریاست مدینہ کے خلیفہ, ہمارے محترم وزیراعظم کی سب سے اہم اور پہلی ترجیح ترکی سے آئی میڈیا ٹیم سے ملاقات کرنا اور مستقبل میں ڈرامے بنانے کا ہے ۔ جبکہ ہمارے محترم وزیر اعلی کی ترجیح گلف میں گھومنا اور صدر محترم کی ترجیح کوئٹہ کے اوپر سے پرواز کرکے اپنی فیملی کے ساتھ گوادر میں سیر و تفریح کرنا ہے  ۔ یہ کیسی ریاست مدینہ بن رہی ہے جہاں اتنے بے جس حکمران بستے ہیں ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ایک قول تھا کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرجائے تو اس کے لیے میں جواب دہ ہوں  ۔ مگر ہمارے خلیفہ محترم نے وہاں سے صرف کتا ہی کوڈ کر لیا اور بس اسی کی ذمہ داری نباہ رہے ہیں ۔ ان کے سامنے عوام, ان کے مفادات اور زندگیاں ثانوی ہیں ۔

بجائے اس کے کہ وزیراعظم پہلے دن آتے اور ان کی اشک جوئی کے ساتھ ان کے قاتلوں کی گرفتاری اور سزا کی یقین دہائی کراتے,الٹا ان کی جانب سے انتہائی سفاکانہ اور غیر ذمہ دارانہ رویہ دیکھنے میں آیا وہ ٹویٹ کرتے رہے کہ اپنے پیاروں کی لاشیں دفنا دو, میں تب آؤنگا ۔ یہ وہی شخص ہے جس نے 2013 میں جب اپوزیشن میں تھا تو حکمرانوں کو قصور وار ٹہرا کر مستعفی ہونے کے مشورے دیے اور وعدہ کیا تھا کہ میں اقتدار میں آکر ایک ماہ کے اندر اندر ان کے مسائل حل کروں گا ۔ مگر اب جب خود مسند پر بیٹھا ہے تو کہتا ہے کہ یہ مجھے بلیک میل کرنا چاہ رہے ہیں ۔ مجھے بلیک میل نہ کریں ۔ کیا ان کا کام صرف یہی کہنا رہ گیا ہے کہ “میں کسی کو این آر او نہیں دونگا” ۔ یہ تو تم سے کوئی این آر او نہیں مانگ رہے تھے ۔ یہ تو صرف آپ کا دست شفقت, اپنے عزیزوں کے قاتلوں تک رسائی اور انہیں قرار واقعی سزا کی درخواست کر رہے تھے  ۔ پھر بھی اگر یہ بلیک میلنگ کر رہے تھے تو احتجاج اور بلیک میلنگ کا یہ طریقہ بھی تحریک انصاف کی حکومت کا دکھایا گیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ دھرنا حکومت پانے کا تھا اور یہ دھرنا اپنے پیاروں کے لیے انصاف حاصل کرنے کا تھا ۔ وہ دھرنا ہنسی خوشی اور ناچ گانے اور ڈی جے کی تھرل پر چاپ کا تھا جب کہ یہ دھرنا اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ بین کرنے کا ہے  ۔ ان کا ایک سو چھبیس دن کا بلیک میلنگ کا وقت کیسے گزرا شاید انہیں معلوم بھی نہیں ہوا  ۔ مگر ان کا ایک ایک لمحہ اذیت اور تکلیف میں گزرا تھا ۔

مقتل سے آ رہی ہے صدا اے امیرِ شہر

اِظہارِ غم نہ کر ، میرا قاتل تلاش کر

باہر کے ممالک کے سربراہان اور وہاں کے ضابطوں کی تعریفیں کرنے والا عمل کے وقت غائب ہے ۔ کم سے کم یہاں تو ایک کافر ملک

نیوزی لینڈ کے وزیراعظم جیسنڈا کی تلقید کرتا جو اپنے ملک میں پچاس سے زائد مسلمانوں کے قتل پر ان کی دلجوئی کے لیے ان کے پاس اور ساتھ تھی اور جنونی قاتل کو تختہ دار تک پہنچا دیا ۔

بات جہاں تک بلوچستان کے وزیراعلی اور ان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کی ہے ان کے لیے اہم لوگوں کا قتل ہونا نہیں لاشوں کی غلط گنتی ہے ۔ سا تھ ہی وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کی کیا بات کریں کہ کابینہ کے اجلاس میں اسامہ ندیم کے اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں قتل پر بے رحمانہ الفاظ “چھوڑیں جی ایسے معمولی واقعات تو ہوتے رہتے ہیں” اور وزیراعظم کو سانحہ مچھ والوں کے پاس دلجوئی کے لیے نہ جانے کا مشورہ دینے والے سے کسی اچھائی کی امید بھی نہیں ۔

حاکم کو یہ ڈر ہے کہیں قاتل نہ ہو ناراض

مقتول کا لاشہ بھی اٹھانے نہیں آتے

احتجاج کے ساتویں دن وزیراعظم آخر کار اپنی ضد منوا کر آگئے , پھر چاہے کسی بھی طریقے سے ہی , مگر لواحقین کے پاس جانا گوارا نہیں کیا اور انہیں بہادر خان یونیورسٹی بلوایا ۔ لواحقین کے مطالبات سن کر وقتی طور پر تو انہیں مطمعن کردیا اور قاتلوں کی گرفتاری کی یقین دہانی کرا دی مگر ان سب حالات کو دیکھ کر کئی سوالات اٹھتے ہیں کہ, کب تک لشکر جھنگوی اور داعش کے صرف تیس چالیس افراد کے سامنے پوری مملکت پاکستان بے بس رہے گی ۔ کب تک سیکیورٹی صرف حکمرانوں کے لیے ضروری رہے اور عوام کے جان و مال کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی؟؟ کب تک بلوچستان سمیت ملک بھر میں ناحق خون بہتا رہے گا؟؟ کب تک اہل بلوچستان اور ہزارہ برادری کو وعدوں کے آسرے رکھا جائے گا ؟؟ کب تک ان صادق اور امین حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد رہے گا؟؟ کب تک؟؟ آخر کب تک ؟