مہمان اللہ کی رحمت‎

میں اکیلی کمرے میں موجود کافی دیر سے چھت پر لگے پنکھے کو ٹکٹکی باندھے دیکھے چلی جارہی تھی۔جو تیز تیز چل رہا تھا اور  ہوا دے رہا تھا ۔اس کی تیز رفتار کو دیکھ کر دماغ ماضی کی یادوں میں چلاگیاتھا۔کہ ہاں کچھ ہی سال پہلے کی تو بات تھی۔جب میں بسکٹس ،چپس وغیرہ منگوا کر رکھتی تھی۔اس موقع پر کہ جب گھر کا کوئی فرد بیمار پڑتا تھا۔تو اس فرد کی عیادت کرنے کے لیے آنے والوں کا ہجوم ہوا کرتا تھا۔اور ایسے میں شربت بنا بنا کر اکتا جایا کرتی۔تو اسلیے کئی دفعہ تواکھٹے ہی کو لر بھر کربھی  روح افزا بنا کر رکھ دیا تھا کہ بار بار نہ بنانا پڑے۔اور مزہ تو تب آتا تھا کہ جب وہ روح افزا بھی ختم ہوجاتا اور وہ آگے رکھنے والی چیزیں بھی تو کئی مہمان جو ساتھ میں مزیدار سے جوسس اور اچھی اچھی سی چیزیں گھر کے بیمار فرد کے لیے لایا کرتے تو وہ بھی ان ہی کو مہمانوں کے آگے رکھنا پڑتیں اس وقت بڑی چڑ ہوتی تھی  کہ یہ تو ہمارے لیے ہیں۔ہم کیوں مہمانوں کے آگے رکھیں؟؟؟؟لیکن امی بڑے پیار سے اسے سمجھاتیں تھیں کہ بیٹا نکال لو یہ چیزیں۔مہمانوں کی خاطر داری کرنے کا بڑا ثواب ہے۔اللہ اور دے گا۔(خیال رہے کہ اُس وقت کریم اور ابر یا آن لائن ڈلیوری جیسی سہولیات نہیں ہوا کرتی تھیں کہ یہاں گھر میں کچھ ختم ہو اور فورا ہی آن لائن چیز حاضر ہوجائے)لہذا مزید چیزوں کے آنے میں وقت درکار ہوتا۔

اور ساتھ میں یہ بھی ہوتا کہ ایک فیملی گئی تو دوسری آگئی اور دوسری گئی تو تیسری ۔مہمانوں کی لائن لگی ہوتی۔اور کبھی تو ساتھ میں دو الگ الگ طرح کے جاننے والے آجاتے ۔یعنی ایک رشتہ دار تو دوسرے ابو کے دوست یا امی کی سہیلی۔اور ایسے میں کس کو زیادہ وقت دیا جائے یہ تھوڑی دقّت پیش آتی۔

اس وقت اور تھوڑا چڑتی  تھی۔کہ گھر میں کسی کا بیمار پڑنا بھی مشکل ہے۔کہ گھر کا کوئی فرد بیمار پڑتا ہے تو اتنے عیادت کرنے والے آتے ہیں کہ گھر کے باقی افراد ہی بیمار پڑجائیں۔بہت سے لوگ تو آتے ہی کہ دیتے تھے کہ کوئی ٹرے لانے کی ضرورت نہیں۔ہم بس بیمار کو دیکھنے آئے ہیں۔لیکن ساتھ ہی امی آنکھ کا اشارہ کرتیں اور پھر جو بھی ہوتا حاضر کر دیتی ۔امی نے بچپن سے ہی یہ بات دماغ میں بٹھائی تھی کہ بیٹا جو بھی گھر میں آپ سے ملنے آتا ہے وہ اپنا وقت لگا کر آتا ہے لہذا اس کی قدر کرو ۔اور ساتھ ہی یہ کہ بیٹا عیادت کرنے کے لیے آنے والے تو ثواب حاصل کرنے کے لیےآتے ہیں کہ بیمار کی عیادت کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔لہذا ان ثواب کمانے والوں کو خالی پیٹ نہ جانے دو۔اور پھر چڑتی اور کہتی اُف یہ عیادت کرنے کے لیے آنے والے!!!!!

اچھا بعض جاننے والیاں تو  ہاتھ پکڑ کر وہیں بٹھا لیتیں کہ کچھ لانے کی ضرورت نہیں۔ایسے میں بڑی دلچسپ سی صورت حال بھی پیدا ہوجاتی کہ اپنا ہاتھ  کیسے چھڑاؤں اور امی کی بات کیسے مانوں ؟؟؟؟؟

بہر صورت ایسے میں امی ان کے جاتے وقت خود ہی ان کے منہ میں کچھ نہ کچھ ڈال ہی دیتیں۔

اچھا بعض افراد تو آتے ہی کہتے بھی تھے کہ ہمیں تو تم لوگوں نے بتایا بھی نہیں کہ تمھارے گھر کا فرد بیمار ہے۔ہمیں تو فلاں نے یا اُس نے بتایا اور اس وقت  دل چاہتا کہ کہوں آئندہ کوئی ہمارے گھر کا فرد بیمار ہوا تو جیو نیوز پر پٹی چل وا دیا کریں گے یا پھر اخبار کا ضمیمہ نکل وا دیا کریں گے تاکہ پورے خاندان اور سارے ہی جاننے والوں کو اطلاع ہوجائے۔لیکن والدین کی تربیت کے بڑوں کے آگے بولتے نہیں ۔ان کی باتیں سُن کر اس وقت تو خاموش ہوجایا کرتی ۔لیکن ان کے جانے کے بعد امی ابو سے ضرور کہتی کہ یہ بھی بھلا کوئی بات ہوئی کہ اب ہم ہر ایک کو فون کر کے بتائیں۔تو  امی ابو سمجھاتے کہ بیٹا یہ تو اپنی محبت میں کہ رہے تھے۔اور میں حیران ہوتی  کہ اچھا کیا واقعی یہ بھی محبت کا انداز ہے!!!!!

یا پھر کوئی آکر کہتا کہ کل تک تو اچھے بھلے تھے یہ آج اچانک کیوں بیمار پڑ گئے؟؟؟اور ایسے میں دل کرتا کہوں کہ آپ کی یاد نے ستایا تھا اسلیے بیمار پڑے ہیں کہ اسی بہانے آپ دیکھنے آجائیں گے اور آپ کا دیدار کرنے کا شرف حاصل ہوجائے گا۔لیکن ادب و احترام میں کمی نہ آجائے اس ڈر سے جی بس بیماری پہلے سے بتا کر ،دروازہ کھٹکٹا کر،اجازت طلب کر کے نہیں آتی نا اسلیےاچانک  بیمار پڑے ہیں۔ہی کہتی ۔

لیکن  آج جب کرونا کے دنوں میں خود کو بخار ہوا تو کوئی بھی میرے پاس آنے والا نہ تھا۔اور اس وقت مجھے  وہ سارے مہمان یاد آرہے تھے جن کی میزبانی کرنے سے میں نالاں تھی۔آج اس تپتے بخار میں خود بھی بیمار تھی لیکن میرے پاس کوئی مہمان نہ تھا ۔میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہی تھی۔دل چاہ رہا تھا کہ کسی اپنی کا ہاتھ پکڑوں اور وہ کہے کہ تمھارا بخار جلد اتر جائے گا۔تم ٹھیک ہو جاؤگی۔تو اتنے میں کوئی اور بھی  آئے اور میں اٹھنے کی کوشش کروں تو وہ کہے ارے بھئ نہیں اٹھو۔آرام کرو ۔اور پھر وہ بڑے لاڈ سے سوپ کا چمچہ میرے منہ ڈالے کہ بس ایک چمچہ پی لو ۔آرام آجائے گا۔اور میں کہوں  کہ نہیں پیا جارہا اور وہ میرا ماتھا چھوتے ہوئے کہے کہ دیکھو تمھارا بخار پھر بڑھ رہا ہے۔ذارا سا پی لو۔

لیکن آج تو ایسا کچھ بھی نہ تھا۔اکیلے تنہا بیمار پڑی تھی اور پھر مجھے اس “عیادت کرنے کا بڑا ثواب ہے۔”کی حکمت سمجھ آرہی تھی۔کہ ہاں آنے والے مہمانوں سے مریض کا بھی دل بہل جایا کرتا ہے تو ساتھ اس فرد کو بھی صحت بڑی نعمت ہے کا احساس ہوجاتا ہے۔