ہمارا تعلیمی نظام اور معاشرتی ترقی

ہر انسان کا خواب ہوتا ہے کہ وہ ایک اعلی مقام تک پہنچے لیکن یہ خواب کچھ لوگوں کے لیے خواب ہی رہ جاتا ہے اور کچھ لوگ اس کو حقیقت میں بدل دیتے ہیں۔ دنیا میں کچھ بننے کے لئے خواب دیکھنا لازمی ہے لیکن اس خواب کو خواب کی حد تک رکھنے سے انسان منزل پر نہیں پہنچ جاتا اس کے لئے اس کو عزم کرنا پڑتا ہے، کوشش کرنی پڑتی ہے،محنت کرنا پڑتی ہے۔     جس قوم میں بچوں کو بلند و بالا خواب نہیں دکھائے جاتے وہ قوم کبھی آگے نہیں بڑھتی۔ جب انسان کسی منزل کو پانے کے لئے خواب دکھے گا اپنے آپ کو اس جگہ محسوس کرکے اچھا محسوس کرے گا تو اس کے اندر اس منزل کو پانے کی تڑپ بھی محسوس ہوگی پھر اس کے لئے وہ کوشش بھی کرے گا۔  جب انسان کو کوئی خواب بار بار دکھایا جاتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ اس کے اندر گہرائی تک اترنے لگتا ہے اس کو  موٹیویشن اور حوصلہ مل رہا ہوتا ہے کہ وہ واقعی اپنی منزل کو پا سکتا ہے۔ میں نے ایک بار بچوں کو سائنس کا ایک چھوٹا سا موضوع پڑھنے کو دیا کہ کل میں اس کا ٹیسٹ لوں گی  اور اگلے دن اس کا ٹیسٹ لیا تو ایک بچی کی والدہ کو شکایت یہ ہوئی کہ ہمارے بچے کو یاد نہیں ہو رہا تھا یہ تو اولیول کے اسکولز میں ہوتا ہے جہاں کسی مضمون میں سے کوئی سی بھی خالی جگہ پر کرنے کو دے دی جاتی ہے۔ مطلب وہ رٹا لگوا کر پورے مارکس آنے کو بچے کی کامیابی سمجھتی ہیں اور ایک چھوٹا سا موضوع جس میں بچے کو ایک دن کا ٹائم بھی ملا تھا، سمجھایا بھی گیا  تھا اس میں بھی  بچے کو ایک چھوٹے سے مضمون کی تیاری نہیں کرا پائی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں یا تو ایجادات ہوتی نہیں یا اگر ہوتی بھی ہیں تو آٹے میں نمک کے برابر۔ کیونکہ رٹا لگواکر وہ ہی ٹیسٹ میں لکھ دینا بچے کے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ہی ختم کردیتا ہے۔ پھر یہی بچے آٹھویں جماعت کے بعد جب نویں جماعت میں جاتے ہیں تو ان سے پوری پوری کتابیں پڑھی نہیں جاتیں وہ صرف مختلف سینڑز کے نوٹس اور فائیو ایئرز پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں اور پیپر میں جب ان سے ہٹ کر کچھ الگ آجائے تو روتے ہیں۔ اس وقت ہم اس لئے پچھتاوا محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں نصاب کی کتابوں کو پوری اور صحیح طریقے سے پڑھنے کی عادت نہیں ڈالی گئی ہوتی اور جو عادت بچپن سے نا ڈالی جائے وہ بعد میں بھی مشکل سے ڈلتی ہے۔ تو پھر جس قوم میں رٹا لگا کر امتحان پاس کرنے کا رجحان زیادہ ہو وہاں بچوں کے اندر بلند و بالا خواب دیکھنے کی عادت کیسے ہوگی؟

غیر نصابی سرگرمیاں طلبا کے لئے بہت اہم ہیں۔

یہ بھی ایجوکیشن سسٹم کا ایک اہم حصہ ہے جو کہ اکثر اسکولز میں نہیں ہوتا۔سائنس لیب کا مطلب   صرف نویں دسویں جماعت کے  بچے ہی وہاں پڑھ سکتے ہیں؟  سائنس لیب تو چھوٹی کلاس میں پڑھنے والے طالب علموں کے لئے بھی ہونی چاہیے کیونکہ سائنس کے مضامین کو صرف کتاب میں پڑھ لینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بچے اگلی جماعت میں جانے تک بھول چکے ہوتے ہیں۔ اگر ہم بچوں کو کتاب میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کو ایکسپیریمنٹس بھی کروائیں گے تو بچوں کی دلچسپی  بڑھے گی کیونکہ سائنس تو وہ مضمون ہے جس کے حوالے سے انسان کو ہمیشہ تجسس ہی رہتا ہے کہ کوئی بھی چیز آخر کیسے ہو رہی ہے اور کیوں ہو رہی ہے۔ لہذا ایکسپیریمنٹس سے نا صرف بچوں کو پڑھنے میں مزہ آئے گا بلکہ ان کو تعلیم بوجھ بھی نہیں لگے گی۔ ہمارے ہاں بہت ہی کم اسکولز ہیں جو بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں پر کام کرتے ہیں۔ بڑی تعداد میں اسکولز ایسے ہیں جہاں تعلیم کے نام پر پیسا کمانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ گلیوں میں کھلنے والے چھوٹے اسکولز میں پڑھانے کا بھی دل نہیں چاہتا۔ چھوٹی چھوٹی کلاسسز، ٹیچر کا اسکول میں آکر مضمون کو سمجھا کر اسکے چند سوال جواب لکھواکر اسی کا ٹیسٹ لے لینا۔ اسی کو اسکول میں پڑھنے کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس طرح طالب علم کو اردو انگریزی پڑھنا تو آجاتی ہے لیکن ان میں نا تو تخلیقی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور نا ہی ان کو انگریزی اور اردو کے الفاظ کا چناو صحیح سے آتا ہے۔ خاص طور پر انگریزی زبان۔ یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے کئی نوجوان انگریزی فرفر نہیں بول پاتے اس معاملے میں وہ نوجوان بچے زیادہ فائدے میں رہتے ہیں جن کی اسکولنگ اچھی ہوئی ہوتی ہے۔ جتنے بھی اسکولز ہیں چاہے وہ گورنمنٹ اسکولز ہوں یا پرائیوٹ اسکولز ہوں سب کو بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں پر کام کرنا چاہئے، سب کو یکساں تعلیم دینی چاہئے تاکہ یہ بچے اپنے اندر احساس کمتری محسوس نا کریں کیونکہ جن کی اسکولنگ اچھی نہیں ہوتی وہ بچے احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہر بچہ مہنگے سے مہنگے ترین اسکول میں نہیں پڑھ سکتا تو کیوں نا ہر بچے کو یکساں تعلیم دی جائے اور حقیقتا ایسا ہونا بھی چاہیے اور نا صرف یہ بلکہ بچوں کو اونچے خواب بھی دکھائیں۔ وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔

“انسان کو چلنا زمین پہ چاہیے لیکن نگاہ آسمان پہ ہونی چاہیے۔”

بچوں کو اتنے اونچے خواب دکھانے چاہیے کہ بچہ اس خواب کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے محنت کرنے لگے اور اس وجہ سے اسکی موٹیویشن برقرار رہے۔

انسان کیوں نا خود کو اتنا فائدہ دینے والا بنا لے کہ جاتے جاتے وہ اس دنیا کو بہت کچھ دے کر جائے اور ایک انسان کی کامیابی و کامرانی کو دیکھ کر بہت سے لوگ حوصلہ پکڑتے ہیں، ہمت پکڑتے ہیں، موٹیویشن حاصل کرتے ہیں اور اسی طرح ایک قوم پروان چڑھتی ہے۔

تحریر: افراح عمران