پٹرولیم بحران  اور ریگولیٹری کیپچر(Regulatory Capture)

13 جون 2006 کواس وقت کے چیئرمین نیب لیفٹننٹ  جنرل (ر) شاہد عزیز  نے صدر پرویز مشرف  اور وزیر اعظم شوکت عزیز کے سامنے  پٹرولیم کی قیمتوں کے تعین سے متعلق  جون 2001 سے لے کر جون 2006 تک کی ایک پانچ سالہ رپورٹ پیش کی  جس کے مطابق  حکومتی عہدہ داران اور آئل انڈسٹری  کی بد فعالی کی  وجہ سے  83 بلین روپے کا نقصان ہوا اور آئل کمپنیوں نے چار ہزار فیصد تک کی منافع خوری کی۔ اس رپورٹ میں انہوں نے لکھا : ” یہ بات کافی حد تک واضح ہے کہ وزارت پٹرولیم نے آئل کمپنیوں کی مشاورتی کمیٹیOCAC ، آئل انڈسٹری اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوںOMCsکی ملی بھگت سے ریفائنریوں اور آئل کمپنیوں کے لئےنا جائز  اور بھاری بھرکم  مالی منافع پیدا کرنے کے لئے خود کو بدعنوانی کے طریق کار میں ملوث کیا ہے اور ایسا  مجموعی طور پر عوام اور معیشت کی قیمت ادا کر کے  کیا گیا ہے”۔ لیکن ان کی اس رپورٹ کو عوام میں  ظاہر نہ ہونے دیا گیا ۔  جون 2009 میں نیب نے اس رپورٹ کو سپریم کورٹ کے جسٹس بھگوان داس کمیشن کے سامنے پیش کیا جس کے نتیجہ میں وزارت پٹرولیم اور اوگرا کے درمیان بلیم گیم(blame game) کا معاملہ دیکھنے میں آیا۔ اسی طرح  جنوری 2015 میں پیداہونے والے   شدید پٹرولیم بحران  میں  بھی آئل کمپنیوں نے بھاری منافع کمایا جبکہ لوگوں کو  نا صرف تیل کی قلت   کا سامنا ہوا  بلکہ  انہیں مہنگے تیل کا بوجھ  بھی اٹھانا پڑا۔ اور اب جون 2020  میں پیدا ہونے والے ایک اور تیل کے بحران میں بھی یہی دیکھنے میں  آیا کہ جب دنیا میں  تیل کی قیمت  ایک معقول حد تک گر چکی تھی تو  ایسے وقت میں ضرورت اس بات کی تھی  کہ تیل کی زیادہ سے زیادہ مقدار میں درآمد  کو یقینی بنایا جاتا تا کہ دنیا میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کا فائدہ عوام تک  بھی پہنچتا ۔لیکن اس کے بر عکس درآمدات  پر پابندی عائد کر دی گئی۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ  اکثر آئل کمپنیوں نے  بھی پٹرولیم مصنوعات کی فروخت کو روک دیا  تا کہ  تیل کی قیمتوں کے بڑھنے پر فروخت کو  کھولا جائے  جس وجہ سے   زیادہ منافع  کمایا جا سکےہو۔ اس بناء پر  پورے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے بحران نے  جنم لیا۔

اس سلسلے میں14دسمبر  2020کو وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے پندرہ رکنی تحقیقاتی کمیشن نے جون 2020میں پیدا ہونے والے تیل کے بحران پر اپنی163 صفحات پر مبنی رپورٹ پیش کی اور اس شعبے کو ریگولیٹ (منظم) کرنے کی ذمہ دار تنظیم اوگرا(آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹیOGRA) کو اس بحران کا بنیادی ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس کو ختم کرنے کی سفارش کی۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ میںیہ بھی کہا گیا ہے کہ آئل سیکٹر میں وسیع پیمانے پر کارروائیاں قانون و قواعد کے منافی اور بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے خلا میں چل رہی ہیں۔  رپورٹ میںیہ بھی کہا گیا ہے کہ اوگرا کے امور کو دیکھ کر کمیشن  تمام ریگولیٹری اداروں (مثلاً نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹیNEPRA، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹیPEMRA، مسابقتی کمیشن آف پاکستانCCP اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستانDRAP) کے پرفارمنس آڈٹ کی سفارش کرنے پر  بھی مجبورہے۔ اس سے قبل سیکیوریٹی اینڈ ایکسچینج کمیشنSECPکے سابق سربراہ کی سربراہی میں قائم کمیشن نے بجلی کے شعبے میں پچھلی حکومتوں اور ریگولیٹری اتھارٹیوں کی ملی بھگت سے عوام کے کھربوں روپوں کی لوٹ مار کا سارا بھانڈا پھوڑ دیا تھا، جو آج بھی دھڑلے سے جاری و ساری  ہے۔

تیل کے بحران پر  قائم  کردہ کمیشن کی رپورٹ نے جس مسئلے کی نشاندہی کی ہے اسے معاشی زبان میں ریگولیٹری کیپچر(Regulatory Capture)کہا جاتا ہے۔  یہ حکومت کی ناکامی کی ایک شکل ہے جس میں کسی شعبے کی تنظیم کیلئے قائم ریگولیٹری اتھارٹی، جو عوامی مفادات کی نگہبانی کی ذمہ دار ہوتی ہے، وہی اتھارٹی بذاتِ خود  نجی سیکٹر کے زیر اثر آ جاتی ہے ، یوں عوامی مفاد کو نجی شعبے کے مفاد پر قربان کردیا جاتا ہے۔ ریگولیٹری کیپچر کا مسئلہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جہاں سیاسی نظام جمہوریت کمزور ہے، یا قانون کیبالادستی کو یقینی بنانا ایک بڑا مسئلہ شمار ہوتا ہے، بلکہ یہ مسئلہ ترقییافتہ ممالک  امریکا و یورپ سے درآمد شدہ ہے جہاں جمہوریت مستحکم ہے اور قانون کی بالادستی کا بظاہر کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ اس مسئلے کی جڑیں بذات خود سرمایہ داریت اور جمہوریت میں پیوست ہیں۔

اس کی حالیہ مثال امریکا کے ایک ریگولیٹری ادارے  فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے)  کی ہے جس نے 2005 میں طیاروں کے حفاظتی سرٹیفیکٹ  جاری کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں سے اتار کر طیارے بنانے والی کمپنیوں پر ڈال دی اگر وہ کچھ مخصوص شرائط پوری کردیں۔ 2018 اور2019میں  محض پانچ مہینے کے وقفے سے بوئنگ کے جدید ترین طیارے737 میکس8، جسے 2017 میں متعارف کرایا گیا تھا، اس  کےدو جہاز سفر کے دوران  انڈونیشیا اور ایتھوپیا میں تباہ ہوئے جن میں کل 346 لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔29 اکتوبر 2018 کو ان دونوں  میں سے پہلے طیارے کے حادثے کے   بعد  بوئنگ کمپنی نے  اس بات کا انکشاف کیا کہ اس طیارے میں  ایک نئے قسم کے فلائٹ کنٹرول سسٹم  کا استعمال کیا گیا ہے جو   ایک حد سے زیادہ  زاویے کے ساتھ   بلندی کی  جانب بڑھنے  کی صورت میں طیارےکے لئے   مسائل پیدا کر سکتا ہے ۔جبکہ اس بات  کا ذکر اس جہاز کے ہدائتی  کتابچے سے بھی غائب تھا۔ لیکن بوئنگ کمپنی  اور ایف اے اے نے حادثے کا  سارا ملبہ  اس ملک کی ائیر لائن  کمپنی پر  گرایا کہ اس نے اپنی ٹیم کی مناسب تکنیکی  تربیت نہیں کی ۔لہٰذا 10 مارچ 2019 کو اس جہاز  کا دوران سفر دوسرا حادثہ پیش آیا۔ اس حادثے کے بعد اکثر ممالک کی ایئر لائنز نے خود  اس طیارے کو گراؤنڈ کر دیا۔ چین  کی ایوی ایشن اتھارٹی  نے  اپنے 96 ایسے طیاروں کو گراؤنڈ کیا جو اس ماڈل کے تھے، کینیڈا نے 39 اور بھارت نے  21 طیارے  گراؤنڈ  کیےلیکن اس کے باوجود  ایف اے اے  نے اگلے دن یہ بیان جاری کیا کہ یہ طیارہ پرواز کے لئے  محفوظ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ایف اے اے نے ملک میں  اس طیارے کو  گراؤنڈ کرنے کے حق میں بڑھنے والے دباؤ کی بھی مخالفت کی۔  آخر کار13 مارچ 2019 کو  دونوں حادثوں میں مماثلت بالکل واضح ہو جانے کے بعد جا کر    ایف اے اے  نے اس طیارے کو گراؤنڈ کرنے کا اعلان کیا   حالانکہ اس وقت تک  اکثر ممالک اپنے ان طیاروں کو پہلے سے ہی گراؤنڈ کر چکے تھے ۔

یہ ترقی یافتہ ترین ممالک میں ریگولیٹری کیپچر کی صرف ایک مثال ہے جبکہ ایسی سینکڑوں مثالیں دنیا بھر میں اور بھی موجود ہیں۔ ہمارے یہاں پٹرولیم بحران  کے ضمن میں اوگرا کی مثال   بھی اسی عمل کا مظہر ہے جس میں ریگولیٹری اتھارٹی اس نجی  سیکٹر کے ہاتھوں” کیپچر”  ہو جاتی ہے   اور ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے جس سیکٹر  کو اس نے عوام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لئے ریگولیٹ کرنا ہوتا ہے۔لیکن محض  کسی ادارے کے چند لوگوں  کی بد اعمالی  کو ریگولیٹریکیپچر (Regulatory Capture)  کی تمام تر وجہ  گرداننا درست نہیں۔ کیونکہ یہاں   مسٔلہ صرف چند افراد کی  کرپشن کا نہیں بلکہ  جمہوری  نظام حکومت کے ہی کرپٹ ہونے کا ہے جس  میں لوگوں کو کرپشن  کے بہترین  مواقع فراہم ہوتے ہیں  ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ  جمہوریت کے نظام  میں قانون سازی کا اختیار انسانوں  کے ہاتھ میں ہے۔  جو طبقہ  زیادہ طاقتور ہوتا ہے ، جیسے کہ سرمایہ دار یا اشرافیہیا فوجی و سیاسی قیادتیں وغیرہ، وہ اپنی  طاقت اور دولت کے بل بوتے پر حکمرانوں اور قانون سازوں پر آسانی سے اثر انداز ہوکر اپنی مرضی کے ریگولیٹری قوانین عوامی مفاد کی قربانی کی قیمت پر بنوا لیتے ہیں۔ لہٰذا اوگرا یا اس جیسی اتھارٹیوں  کا آڈٹ کرانے  سے یا انہیں ختم کر کے ان کی جگہ  کوئی دوسری ایجنسییا اتھارٹی قائم کردینے سے ریگولیٹری کیپچر(Regulatory Capture) کا مسئلہ ختم نہیں ہوگاکیونکہ مسئلہ دراصل  جمہوریت اور انسانی حاکمیت کا ہے۔

اس کے برعکس اسلام کے نظام میں  توانائی کا شعبہ ، بھاری صنعت کا وسیع حصہ اور انفراسٹرکچر  کے منصوبے نجی سیکٹر کے ہاتھوں گروی ہونے کی بجائے  خود  ریاست کے  اپنے انتظام میں ہوتے ہیں،  لہٰذا ریگولیٹری کیپچر کا مسئلہ سرے سے ابھرتا ہی نہیں ۔چونکہ  ریفائنریوں  میں تیل کو خاطر خواہ مقدار میں موجود رکھنا  اور پھر وہاں سے پٹرولیم مصنوعات  کو  مارکیٹ میں لوگوں کے لئے بہم پہنچانا ریاست  کا کام ہوتا ہے نہ کہ نجی آئل کمپنیوں کا ، لہٰذا نہ تو نجی کمپنیاں اپنا منافع بڑھانے کے لئے تیل کی ذخیری اندوزی کر  کے تیل کی قلت پیدا کر سکتی ہیں اور نہ ہی ریگولیٹری اتھارٹی  پر اثر انداز ہوتے ہوئے اسےغیر فعال بنا کر  کیپچر(capture) کر سکتی ہیں جیسا کہ موجودہ نظام میں  با آسانی ہو جاتا ہے  ۔اسی طرح  نا صرف توانائی بلکہ دیگر شعبوں کے لیے بھیاسلامی نظام حکومت  میں بنائی گئی  ریگولیٹری اتھارٹیز (regulatory authorities) پر نجی شعبہ اثر انداز نہیں ہو پاتا ۔ یہ اس لئے کہ اسلام میں عوامی ضرورت کی اشیاء  اور وسائل کو چند لوگوں کی ملکیت میں دینا جائز نہیں۔ چونکہ توانائی کے وسائل عوام کی  ضرورت  سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا اسلام میں یہ جائز نہیں کہ  چند   افراد مثلاً بڑے سرمایہ دار انہیں خرید لیں  ، تا کہ پھر  وہ   ان وسائل سے بننے والی مصنوعات  کی   پیدا وار میں کمی بیشی کر کےیا  اپنے مرضی کے نرخ متعین کر کے  باقی عوام کی ضروریات  کا گلا   گھونٹ سکیں ۔

چونکہ جمہوریت میں قانون سازی کا اختیار انسان کے پاس ہوتا ہے، سرمایہ دار طبقہ قانون سازی پر اثر انداز ہو کر عوام کا استحصال کر پاتا ہے۔ اسلام میں چونکہ قانون سازی کا اختیار اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس ہے ، اس لئے ایک اسلامی نظام حکومت میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کو من و عن نافذ کیا جاتا ہے۔ یوں اسلام کے احکامات ملکی قوانین کی شکل میں سرمایہ داریت کو پنپنے سے روک دیتے ہیں  اور یوں ریگولیٹری کپچر اور   ان جیسے دیگر  مسائل کا سامنا نہیں ہوتا جن  میںعوامی مفاد کو سرمایہ داروں کے مفاد پر قربان کردیا جاتا ہےاور چند سرمایہ دار عوام کا استحصال کرتے ہوئے بھاری منافع خوری کر پاتے ہیں۔لہٰذا صرف ایک  اسلامی ریاست ہی حقیقی معنوں میں عوامی مفادات کی  نگہبانی کا فریضہ ادا کرسکتی ہے اور ان کی بنیادی  ضروریات کا تحفظ  کر سکتی ہے  نہ کہ ایک  جمہوری سرمایہ دارانہ  ریاست چاہے وہ بظاہر  کتنی ہی  ترقی کیوں نہ کر لے۔اللہ سبحانہ و تعالینے بر حق فرمایا ہے؛﴿ لَا يَكُونَ دُولَةَۢ بَيۡنَ ٱلۡأَغۡنِيَآءِ مِنكُمۡۚ﴾”تاکہمالتمہارےدولتمندوںہی کے ہاتھوں میں نہ گردش کرتا رہے”(سورہ الحشر:7)۔