صرف جمعیت ہی کیوں ؟

فرد کی زندگی کی تعمیر سے شروع ہو کر، معاشرے کی ترقی پر ،تکمیل ہو نے کا نام، اسلامی جمعیت طلبہ ہے ، جس کا حصول ہی اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے ۔ اسی حصول کی خاطر جمعیت نے ہمیشہ طلبہ کی رہنمائی کی اورانہیں فائدہ پہنچانےکے لیے مختلف روایتوں کو فروغ دیا۔ آپ زیادہ دور نہیں جائیے بس چند دہا ئیوں پہلے کا دور دیکھ لیجیے اور اب تعلیمی اداروں میں طلبہ کو دیکھ لیجئے آپ کو یہ فرق واضح نظر آجائے گا ۔ ایک زمانہ تھا جب تعلیمی اداروں میں بچیاں تعلیم حا صل کرنے جاتی تھیں تو ان کےگھر والوں کو پتا نہیں ہو تا تھا کہ ان کی بچیاں خیریت سے گھر پہنچ پائیں گی یا نہیں ، جبکہ لڑکوں کو بھی بے وقوف بنایا جاتا تھا اور فرسٹ ایئر فولنگ کے نام پر ان کے ساتھ بے ہودہ مذاق کر کے انہیں تنگ کیا جاتا تھا ۔ ایسے میں اسلامی جمعیت طلبہ طالب علموں کےلیے ایک امید کی کرن بن کر ابھری اور ان کے لیے تعلیمی ، تربیتی اور تفریحی پروگراموں کا ایک مکمل اور جامع پلان مرتب کیا ۔ جمعیت نے تعلیمی اداروں میں نہ صرف اس قوم کی بیٹیوں کی حفاظت کی ہے بلکہ اس کے معماروں کے کردار کو سنوارنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں نئے داخلوں کے مو قع پر سب سے پہلے جمعیت ہی نے انہیں خوش آمدید کہنا شروع کیا ، جس میں طلبہ کو نہ صرف بھرپور انداز میں رہنمائی فراہم کی گئی بلکہ ان میں تحائف تقسیم کرنے اور پھول نچھاور کرنے کی روایت قائم کرنے کا سہرا بھی جمعیت کے سر ہی جا تا ہے۔ مثبت سرگرمیا ں منعقد کرنے میں بھی بازی لینے میں ہمیشہ جمعیت ہی کا نام آگے رہا ہے ۔ طلبا کیلئےکتب میلے کا انعقاد ہو، مباحثے ہوں یا پھر انٹری ٹیسٹ کی تیاری یا پھر کریش کلاسز کا آغاز، ایساکوئی کام نہیں ہے جو تاریخ میں جمعیت نے نہ کیا ہو ۔ اسلامی جمعیت طلبہ اپنے اندر ایک حسن رکھتی ہے جو اپنے کارکنا ن کی نہ صرف تربیت کرتی ہے، بلکہ ان کے کردار کو سنوارنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پورے ملک میں ایسی کوئی طلبہ تنظیم نہیں جو ملک کے ہرخطے میں مو جود ہو۔آپ پورا پاکستان چھان لیجئے آپ کو کوئی ایسی طلبہ تنظیم نظر نہیں آئے گی جو 74 سالوں سے آج تک منظم انداز میں چلی آرہی ہو، جس کی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہر سال نچلی سطح سے لے کر اپنی اعلی قیادت کو تبدیل کرتی نظر آتی ہے۔ ایک طرف معاشرے میں لیڈر پیدا کرنے والی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ ہے جبکہ معاشرے کو صالح اور باصلاحیت افراد فراہم کرنے والی تنظیموں میں جمعیت ہی پیش پیش نظر آئے گی ۔ 23 دسمبر 1947کو لگایا جانے والا ایک چھوٹا ساپودا آج ایک تنا ور درخت بن چکا ہے اور اس کی جڑیں پوری دنیا میں پھلتی پھولتی نظر آتی ہیں جس کے تربیت یا فتہ افراد اپنی اپنی فیلڈ میں میدان مارتے اور نمایاں کارنامے انجام دیتے نظر آتے ہیں ۔ ذرا ایک لمحے کو سوچیے کہ 25 نوجوانوں کے سفر سے شروع ہونے والا یہ مختصر سا کاررواں آ ج لاکھوں نو جوانوں کا قافلہ کیسے بن گیا ؟ کیا اس کے پیچھے کوئی بین الاقوامی قوت تھی یا پھربیرونی طاقت موجود ہے ،یا اسے سپورٹ کرنے کے لیے دنیا کے بڑے ادارے یا خفیہ ایجنسیاں فنڈنگ کر رہی ہیں ۔ ایسا کیا معاملہ ہے کہ یہ قافلہ مسلسل آگے کی طرف بڑھتا ہی جا رہا ہے ،اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ذرا بتائیے تو سہی کہ ان ساری کامیابیوں کے پیچھے راز کیا ہے؟ درحقیقت اس کے پیچھے ہزاروں کارکنان کی قربانیاں، ان کا خون، ان کی سوچ وفکر کے علاوہ اللہ کی تائید و نصرت شامل ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب کیسے ممکن ہے ؟ کیا کو ئی دعوت اتنی تیزی کے ساتھ پھیل سکتی ہے ؟ کیا کامیابیاں اتنی آسانی سے مل سکتی ہیں ؟ جی ہاں یہ سب ممکن ہے ۔ ذا آپ اس معاشرے میں اپنے گرد نظر دوڑائیے تو اس ملک کی مساجد میں ،کھیل کے میدانوں میں ،اور تعلیمی اداروں میں ایسے نوجوان نظر آئیں گے ، جو طلبہ تک دین کی دعوت پہنچانے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔یہ لوگ مساجد میں مطالعہ قرآن و حدیث کے دروس میں مصروفِ عمل نظر آئیںگے۔ تعلیمی اداروں میں موجود ہر کلاس میں درسِ قرآن دیتے نظر آئیں گے۔کھیل کے میدانوں میں بھی کھیلتے ہوئے سب سے نمایاں کردار و اخلاق کے مالک نظر آتے ہیں ۔پھر انہی میدانوں میں کھیلنے والے نوجوانوں کو مساجد میں جمع کرکے نمازادا کرتے ہیں ۔جس تنظیم میں ایسے بہترین اوصاف اور اعلیٰ کردار کے مخلص کارکن موجود ہوں تو پھر انہیں اللہ کی مدد کیوں نہ حاصل ہو۔ اگر جمعیت کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،اور جمعیت کے کارکنان آج بھی اپنے شاندار ماضی اور روشن مستقبل پر شاداں نظر آتے ہیں، ذرا ایک مرتبہ سوچیے تو سہی کہ جب اسلامی جمعیت طلبہ کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت ملک کے تعلیمی اداروں میں سرخ آندھیوں اور کمیونزم کا غلبہ تھا، یہ کمیونسٹ دین سے دور تھےاور تعلیمی اداروں میں دینی اقدار کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں مصروف عمل نظرآتے تھے ، مگر پھر 1950کی دہائی میں جمعیت نے بہت زیادہ فکری کام کیااور جمعیت آہستہ آہستہ مقبول ہوتی گئی اور 60 کی دہائی میں اس نے پورے ملک کے تعلیمی اداروں میں اپنے قدم بڑھانا شروع کیئے ،او ر سب کو پیچھے چھوڑدیا۔ 1960 میں تعلیمی مسائل کے حل کے لیے نورخان کمیشن بنا تو اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنا تعلیمی چارٹر پیش کیا۔ حمودالرحمن کمیشن میں بھی جمعیت نے اپنا چارٹر پیش کیا۔1967-68اور77میں ملک بھرکے تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ نے یونین انتخابات جیتے،اور ملک بھرکے تعلیمی اداروں میں کلین سوئپ کیا۔ جمعیت نہ صرف مغربی پاکستان میں ایک قوت تھی ،بلکہ مشرقی پاکستان ( بنگلہ دیش )میں بھی اپنی بھرپور طاقت رکھتی تھی۔ ڈھاکہ میں موجود راج شاہی یو نیورسٹی میں بھی جمعیت نے یونین کا انتخاب جیتا۔ 1968-69میں پاکستان توڑنے کے نعرے لگائے گئے۔ عوامی لیگ نے اپنی عسکری تنظیم(مکتی باہنی) کے ذریعے اس ملک کو توڑنے کی کوشش کی گئی ، تو اسلامی جمعیت طلبہ نے ہی اس کے آگے بند باندھا ۔جمعیت میں وطن کی خاطر شہید ہونے والوں کی لمبی فہرست ہے لیکن پہلا شہید ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم عبدالمالک تھا ۔اسے اس سیمینار میں شہید کیا گیا،جہاں پاکستان توڑنے کے نعرے لگائے جارہے تھے۔ یہ عبدالمالک ہی تھا کہ جس نے اس وقت پا کستان زند ہ بادکا نعرہ لگایا ۔اس جرم میں اسے عوامی لیگ کے غنڈوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اوربالآخر اسے شہید کر دیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں پر جمعیت کا قبضہ ہے مگر میں کہتا ہوں کہ تعلیمی اداروں میں جمعیت کا قبضہ نہیں بلکہ طلبا کا بڑی تعداد میں اس پر اعتماد کرنا ہے ، جو جو ق در جوق جمعیت میں شامل ہوکر اس کے قافلے کے سپاہی بنتے ہیں اور اسلامی جمعیت طلبہ کا یہ بہتا دھارا ہے کہ تھمتا ہی نہیں ہے اور اپنے ساتھ سب کو بہا کر لے جاتا ہے ۔ 70 ء کی دہائی میں جب عا م انتخابات ہو ئے تو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے الیکشن جیت کر غیر بنگالیوں کا قتل عام شروع کردیا۔ان حالات میں صرف جمعیت نے ہی مزاحمت کی، اور بلا معاوضہ فوجی خدمات پیش کرتے ہوئے ہزاروں کارکنان نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے ۔جب بھی اس ملک پر کڑا وقت آیا تو جمعیت ہی اس کی محافظ بنی، اور اس کے کارکنان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے ہنسی خوشی چلے آئے۔اس ملک میں چلنے والی کئی بڑی تحریکوں میں جمعیت نے بھر پور حصہ لیا، خواہ وہ بنگلہ دیش نا منظو ر تحریک ہو یا ختمِ نبوت ، آمریت کے خلاف کوئی تحریک ہو یا طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف۔ غرض کہ ہر بڑی تحریک میں اسلامی جمعیت طلبہ نے بھرپور کردار ادا کیا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو گزشتہ سات دہائیوں میں معاشرے کو سب سے زیادہ قیمتی افراد اور ہیرے مہیا کرنے کاکام جمعیت بخوبی انجام دے رہی ہے ، جو کہ کسی بھی معاشرے پر ایک بہت بڑا احسان نظر آتا ہے ۔ جمعیت نے اس ملک کو کیسے کیسے ہیرے دیئے ،انہیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ سب اسلامی جمعیت طلبہ نے تراشے ہیں۔ اگر صحافت میں دیکھا جائے تو ایک طرف بی سی اردو کے نیوز کاسٹر شفیع نقی جامعی نظر آتے ہیں تو دوسری طرف سلیم صافی ، انصار عباسی اور مظہر منہاس جیسے بے باک صحافیوں کا نام آتا ہے ۔ اگر شعبہ تدریس کی طرف نظر دوڑائیں تو آج بھی موجودہ دور میں تعلیمی میدان میں علم کی روشنی پھیلا نے کا کام جمعیت سے نکلے ہوئے اساتذہ ہی کر رہے ہیں جن میں جامعہ کراچی کے پروفیسر اسامہ شفیق ہوں یا پھر وفاقی اردو یونیورسٹی میں شعبہ تعلقات عامہ کے ڈاکٹر فیصل جاوید اور ایجوکیشن ڈپارٹ میں معروف بن رئو ف ہوں یہ اور ان جیسے نمایاں ہیرے روشنی پھیلاتے نظر آتے ہیں ۔ اگر طب و قانون کی دنیا میں دیکھا جائے تو آپ کو پاکستان سمیت دنیا کے بڑے بڑے اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی اکثریت جمعیت سے ہی نکلی ہو ئی نظر آئے گی جس کی ایک مثال معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر واسع شاکر ہیں۔ آج بھی میں سوچتا ہوں کہ اس معاشرے میں اگر جمعیت نہ ہوتی تو آج مڈل کلاس کا کوئی بچہ پڑھا لکھا نہ ہوتا۔ ماضی میں یہاں کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر ہوتا، اور نہ ڈاکٹر عبدالوہاب ہوتا، اور نہ ہی خرم مراد جیسا کوئی انجینئر اور مفکر پیدا ہوتا۔اگر جمعیت نہ ہو تی تو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں شیطان ننگا ناچ رہا ہوتا۔ جمعیت کے یہ نوجوان اللہ اور اس کے رسولﷺ کے شیدائی بھی ہیں ، اور محبتیں بانٹنے والے بھی ۔ جمعیت اس معاشرے کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ جمعیت نوجوانوں کو صا لح بنانے کے ساتھ ان میں صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے، اس کا بے داغ ماضی ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔