نسل نو میں سہل پسندی ،بے سکونی کا بڑھتا رجحان‎

ہماری نوجوان نسل جن بڑے جدید مسائل سے دو چار ہے ان میں سے طرز زندگی کے عو ض حاصل ہونے والی بے سکونی سر فہر ست ہے کچھ مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں جو مسلسل عادت بن جاتے ہیں پھر ان سے چھٹکارا پانا بہت مشکل نظر آ تا ہے۔

موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال، شب بیداری، نیند کا پورا نہ کرنا، نشہ، فحش فلم، ناشتہ، کھانا پینے کا کوئی ٹائم مقرر نہ ہونا، چھوٹی موٹی چیزوں پر بحث و تقرار، گھر کے ماحول اور دوستوں کی بری صحبت، مسجد سے عدم لگاؤ، قرآن سے دوری، والد ين کا تنقیدی لہجہ، الغرض مسائل کی بو چھا ر میں زندگی ا جیرن بن کر رہ جاتی ہے مگر یہ وه بے سکونی ہے جسے ہم نے خود اپنے گرد لپیٹ رکھا ہوتا ہے اس سے نجات بہت آسان ہے اگر ہم روز مرہ کا لائف اسٹائل تبد یل کر لیں تو سب بہتر ہو سکتا ہے۔

فحش فلم کا رجحان بھی پاکستان کی نسل کو دیمک کی طرح چٹ کر رہا ہے چھوٹی عمر کے بچوں میں یہ عادات اور واضح ناقص پالیسی ہماری تباہی کے ذمہ دار ہیں اس سے جس قسم کے مرض ومسائل جنم لیتے ہیں انسانی زندگی پر اسکے اثرات بہت خطر ناک ہوتے ہیں۔

ذہنی، نفسياتی، قلبی، روحانی، اور جسمانی طو ر پر بھی اسکے نقصانات نا قابل تلافی ہیں پوری انسانی زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہے ایسی لاغر، سست، بے جان زندگی کیا عملی زندگی کے لئے کار آمد ہو سکتی ہے یقین سے انسان کو بہت سی صلا حیت سے محرو م کر دیتی ہے جو کسی با مقصد انسان کے لئے زہر قاتل ہی کی طرز کہا جا سکتا ہے۔

ہمارے ہاں اس گھٹن زدہ ، گراوٹی ماحول میں ہما را “اصل سرمایہ” بے راہ روی کا شکار ہے، انسانی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ سکون ہے اگر یہ زندگی کو حاصل ہوجائے تو سمجھ لیجیے انسان کو سب کچھ حاصل ہو گیا ہے اگر سکون نہ ہو تو زندگی بہت اذیت ناک گزرتی ہے۔

واصف علی واصف فرماتے ہیں پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے پیدا ہوتی ہے، اس ذہنی کشمکش، اور فکری افلاس کے دور میں خیالات کی پا كيزگی اسے حاصل ہوتی ہے جو خدا کے قرب کا خواہاں ہو، جس کی سوچ، فکر، خیالات سب اپنے خدا کی دی ہوئی نعمت اور اسکے شکر میں گزر جائے۔

آئیے پلٹ جائیں اپنی اصل پر جس مقصد پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے، اپنے رب کو راضی کریں، خشنودی حاصل کریں، زندگی کو اسکی اصل فطرت پر گزاريں خود رول ماڈل بن جائیں زندگی کو باصلا حیت، صالحیت کی اصل میں پرودیں، باشعور، طریقہ و سلیقہ کی زندگی گزاريں۔ والدين، استاد، جس شعبے میں بھی ہوں ہمیشہ مثبت رہیں، اچھا سوچیں، اچھی سوچ کو پروان چڑھائیں۔

نسل کی فکری، ذہنی و نظریاتی نشوونما، اپنے کرداروں سے کرنا ہوگی۔ راہ اعتدال اپنانا ہوگا، زندگی قیمتی چیز ہے اسکی قدر کرنا ہوگی، اپنا لائف سٹائل خود بدلیں پھر بچوں کو نصیحت کے دیر پا نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔