دنیا کی دوسری بڑی معیشت، ترقی کی راہ پر

دنیا میں وبا کی دوسری لہر کے باعث اقتصادی سرگرمیاں قدرے جمود کا شکار ہیں اور سماجی اعتبار سے بھی اکثر خطوں میں عوام کو مسائل کا سامنا ہے ۔وبائی اثرات نے بلاتفریق دنیا کی تمام معیشتوں کو شدید طور پر متاثر کیا ہے جبکہ اقتصادی بحالی کے آثار بھی اس وقت کافی ماند ہیں۔بڑی معیشتوں میں اقتصادی کاروباری سرگرمیوں کی بات کی جائے تو ماسوائے چین باقی دنیا میں صورتحال تسلی بخش نہیں ہے اور کاروباری اداروں کی پیداواری سرگرمیاں تاحال ٹریک پر واپس نہیں آ سکی ہیں۔ چین اس لحاظ سےباقی دنیا سے الگ ہے کہ یہاں حکومت کے بروقت فیصلوں کے باعث انسداد وبا اور اقتصادی سماجی سرگرمیوں میں ہم آہنگی اپنائی گئی ہے جس کے باعث نظام زندگی معمول پر لوٹ آیا ہے۔چین دنیا کے لیے ایک عالمی فیکٹری کی حیثیت رکھتا ہے اورچینی معیشت کی بحالی وباسےمتاثرہ عالمی صنعتی چین اورسپلائی چین کےلیےبھی نہایت اہم ہے۔ایک ایسے وقت میں جب باقی دنیا میں کارخانوں کی صنعتی سرگرمیاں انتہائی محدود ہو چکی ہیں ، گلوبل سپلائی چین کے اہم جزو کے طور پر چینی کارخانوں میں مشینیں دنیا بھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیےمسلسل کام کر رہی ہیں۔

ابھی حال ہی میں چین کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے سالانہ مرکزی اقتصادی ورک کانفرنس میں آئندہ برس کے معاشی اہداف کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ کووڈ۔19کے تناظر میں یہ سرگرمی دنیا کے لیے بھی نہایت اہمیت کی حامل رہی ہے کیونکہ ماضی میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے اعتبار سے چین کی معاشی فیصلہ سازی کے عالمگیر دوررس اثرات مرتب ہوتے آئے ہیں۔کانفرنس کے دوران عالمی سطح پر غیر یقینی معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میکرو اکنامک پالیسیوں کے استحکام پر توجہ دی گئی ہے ۔ آئندہ برس 2021 اور بعد میں بھی اعلیٰ درجے کی پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کا تعین کیا گیا ہے۔ چین کی کوشش ہے کہ اس ضمن میں صنعتی اور سپلائی چینز کو مضبوط بنایا جائے ، کھلے پن کے تحت بیرونی سرمایہ کاری کے لیے اصلاحات کا تسلسل جاری رکھا جائے اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو فوقیت دیتے ہوئے پیش قدمی کی جائے۔

یہ بات اہم ہے کہ اقتصادی پلاننگ کے اہم جزو “دوہری گردش” کے تحت جہاں کھپت کو فروغ دیا جائے گا وہاں چین کی کوشش ہے کہ کاربن اخراج میں کمی کو بھی یقینی بنانے کے لیے ایکشن پلان تشکیل دیا جائے تاکہ سال 2030 تک کاربن اخراج میں نمایاں کمی کا ہدف حاصل کرتے ہوئے 2060تک کاربن اخراج سے مکمل طور پر جان چھڑائی جا سکے۔روزگار کا فروغ ،سماجی تحفظ کے نظام میں مزید بہتری ، آمدنی کے ڈھانچے میں بہتری سے متوسط آمدنی کے حامل طبقے کی فلاح اور دیگر بے شمار اقدامات سے معیاری نمو کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔صارفی صنعت کی ترقی بھی چین کا اہم ہدف ہے کیونکہ وبا کے باعث دنیا بھر میں یہ شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے جبکہ اس فہرست میں تفریح ،سیاحت جیسے شعبہ جات سب سے اوپر آتے ہیں۔ملک میں مہنگائی کی روک تھام کے لیے قیمتوں کا کنٹرول بھی حکومت کی ترجیح ہے تاکہ عوام کو مزید ریلیف دیا جا سکے۔

چین کی منصوبہ بندی میں ٹیکنالوجی کی ترقی نمایاں امر ہے۔چین کی کوشش ہے کہ اقتصادی ترقی کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا جائے۔حالیہ عرصے میں چین نے ٹیکنالوجی میں خودانحصاری کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ چینی معیشت کی دیرپا ترقی کے عمل میں مقامی ساختہ ٹیکنالوجیز کو کلیدی اہمیت حاصل رہے گی۔چین کی معاشی منصوبہ بندی میں عوامی سہولت کے لیے ایک اور نمایاں قدم پراپرٹی کی قیمتوں میں استحکام بھی ہے۔ شنگھائی اور شنزن جیسے بڑے شہروں میں پراپرٹی کی قیمتیں کافی زیادہ ہیں لہذا چینی حکومت نے اس شعبےکو بھی اپنی معاشی ترجیحات کا حصہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی شعبے میں جدت اور ترقی کو بھی اہمیت حاصل رہے گی۔

عالمی تخمینوں کے مطابق رواں برس چین مثبت معاشی نمو کی حامل واحد بڑی معیشت ہو گی۔ایسے میں چین وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے ساتھ ساتھ عالمی اقتصادی بحالی کے لیے بھی کوشش کر رہا ہے۔چین ترقی کے سفر میں مشترکہ مستقبل کے حامل عالمی سماج کے نظریے کا داعی ہے اوراس کی جھلک چین کی اقتصادی پالیسی سازی میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔